مگر لگتی ہے اس میں محنت زیادہ

ہر مخلوق شعور رکھتی ہے:

یہ بات ہمیں سمجھ میں آئے یا نہ آئے ، ہماری عقل اسے قبول کرے یا نہ کرے، پر حقیقت یہ ہی ہے کہ کائناتِ رنگ و بو کی ہر تخلیق اپنے اندر ایک خاص قسم کا ادراک اور شعور رکھتی ہے۔

٭ ….”جہان کی ہر چیز رب ذوالجلال کی تعریف و توصیف اور اس کی مدح سرائی میں مصروف عمل ہے لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں۔“                 (بنی اسرائیل: ۴۴)

٭ …. ”یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے یہ ”امانت“ آسمانوں اور زمین کے سامنے پیش کی تو انہوں نے اس کا بوجھ اٹھانے سے صاف انکار کردیا۔ وہ اس کا بوجھ اٹھانے سے ڈر گئے۔“               (احزاب: ۲۷)

موجودہ سائنس یہ بات تسلیم کر چکی ہے کہ جمادات اور پتھروں میں بھی ایک خاص قسم کی حس پائی جاتی ہے۔

انسان اور دیگر تخلیقات میں فرق:

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شعور انسان بھی رکھتا ہے اور دیگر مخلوقاتِ عالم بھی۔ تو انسان اور کائنات کی دیگر تخلیقات میں کیا فرق ہے؟ آخر وہ کیا اسباب و عوامل ہیں جن کے تحت مخلوقات کی سرداری کا شرف انسان کو حاصل ہوا اور خلافت ارضی کا تاج اس کے ماتھے پر سجایا گیا۔

باہمی فرق کے تین عوامل:

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تین ایسے عوامل ہیں جن کی بنا پر انسان کو یہ عالمگیر فضیلت حاصل ہے۔

1…. کائنات کی دیگر مخلوقات شعور رکھتی ہیں، عقل نہیں جبکہ انسان کو عقل جیسی عظیم المرتبت نعمت سے نوازا گیا ہے۔

ارشادِ نبویw ہے: ”جب اﷲ رب العزت نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا: ”میں نے اپنی تخلیقات میں تجھ سے زیادہ معزز کوئی تخلیق پیدا نہیں کی۔ تیرے ہی سبب میں لوں گا اور تیرے ہی باعث میں عطا کروں گا۔“

(اخرجہ الطبرانی فی الکبیر والاوسط و ا

¿بو نعیم باسنادین ضعیفین ورواہ عبداﷲ بن الامام احمد فی زوائد الزھد عن الحسن مرفوعاً بسند جید، کما ذکرہ بعض المتاخرین۔ (الموضوعات الکبری: ص ۷۱۳حدیث نمبر ۰۲۲۱)

2…. کائنات میں بسنے والی مخلوقات شعور اور احساس تو رکھتی ہیں لیکن علم کی دولت سے محروم ہیں ۔ جبکہ انسان کو قدرت نے علم جیسے انمول خزانے سے مالا مال کیا ہے۔

یاد رکھےے! علم اور عقل یہ دو خوبیاں فرشتوں کو بھی عطا کی گئیں ہیں، لیکن ان کا جو وافر حصہ انسان کو دیا گیا ہے، فرشتوں کو کبھی عطا نہیں کیا گیا۔ انسانی علم و عقل کی کوئی انتہا نہیں۔ جبکہ فرشتوں کے علم و عقل کی ایک مخصوص حد ہے جس میں مزید ترقی ان کی دسترس اور قدرت و اختیار سے باہر ہے۔ انسانوں کے جد امجد سیّدنا آدم e کو سلامی دینے اور ان کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم فرشتوں کو اسی لےے دیا گیا کہ سیّدنا آدم e علم و عقل میں فرشتوں پر فوقیت رکھتے تھے۔ فرشتے جن سوالات کا جواب نہ دے سکے تھے سیّدنا آدم e اپنے وسیع علم اور عظیم عقلی شعور کی بنیاد پر ان کا جواب دے کر ملائکہ کو لاجواب کر چکے تھے۔ مردود عزازیل کو بھی بارگاہ خداوندی سے اسی لےے دھتکار دیا گیا کہ اس نے حکم خداوندی کی نافرمانی اور انسانِ اوّل کے علم و فضل کی توہین وتذلیل کی تھی۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ”اور آدم کو اﷲ تعالیٰ نے سارے نام سکھلا دےے (یعنی کائنات میں پائی جانے والی چیزوں کے نام، ان کی خاصیتیں اور انسانوں کو پیش آنے والے مختلف احساسات، کیفیات، مثلاً : بھوک، پیاس، صحت، بیماری، نشہ، حسد وغیرہ کا علم دے دیا، پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرشتوں سے کہا : اگر تم سچے ہو تو مجھے ان چیزوں کے نام تو بتلاﺅ! فرشتے بول اٹھے: آپ ہی کی ذات پاک ہے۔ جو کچھ علم آپ نے ہمیں دیا ہے اس کے سوا ہم کچھ نہیں جانتے…. اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: آدم! تم ان کو ان چیزوں کا نام بتادو! چنانچہ آدم نے ان کے نام بتا دےے …. اور وہ واقعہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ : آدم کو سجدہ کرو! چنانچہ سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ اس نے انکار کیا اور متکبرانہ روایہ اختیار کیا اور کافروں میں شامل ہوگیا۔“ (البقرة : ۱۳-۴۳)

3…. کائنات کی ہر مخلوق اﷲ تعالیٰ کی بندگی اور اطاعت میں مصروف ہے۔ لیکن اس کی بندگی اور اطاعت سے ان کو قربِ خداوندی کا ایک محدود مقام ہی حاصل ہوتا ہے جس میں مزید ترقی ان کے لےے ممکن نہیں۔ خود ملائکہ اور جنات بھی قربِ خداوندی کا ایک محدود اور معین مقام رکھتے ہیں جس سے وہ سرِمو تجاوز نہیں کرسکتے۔

٭…. ”وما منا الا لہ مقام معلوم“ اور (جنات و ملائکہ نے کہا کہ ) ہم میں سے ہر ایک کا ایک معین درجہ ہے۔“ (الصفّٰت: ۴۶۱)

٭…. ”حضرت جبرئیل e نے کہا : اے محمد! میرے اور پروردگار کے درمیان نور کے ستر ہزار پردے حائل ہیں۔ ان پردوں میں سے کسی کے قریب بھی میں پہنچ جاو

¿ں تو جل جاو¿ں ۔“

(مظہری بحوالہ مصابیح السنة، الصافات: ۴۶۱)

٭…. ”اﷲ رب االعزت نے جب سے حضرت اسرافیل e کو پیدا فرمایا ہے اس وقت سے وہ مسلسل اپنے قدموں پر کھڑے ہیں۔ نظر بھی اوپر نہیں اٹھاتے۔ ان کے اور ان کے رب کے درمیان ستر نوری پردے حائل ہیں۔ اگر ایک کے بھی قریب ہوجائیں تو جل جائیں۔“ (مظہری بحوالہ ترمذی، الصافات: ۴۶۱)

جبکہ انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جو قرب خداوندی کے مقامات میں مسلسل ترقی کر سکتا ہے۔ اس کی ایک دلیل انسانوں میں نبوت اور ولایت کا سلسلہ جاری ہونا ہے۔ دوسری واقعہ

¿ معراج ہے، جس میں حضور ختم المعصومینwکو عرشِ بریں سے بھی آگے ان مقامات کی سیر کرائی گئی جہاں اس سے پہلے کسی مقرب سے مقرب فرشتے کو پل بھر کے لےے بھی رسائی نہیں دی گئی۔ اس کے علاوہ خداوند عالم کی براہ راست اور بلا حجاب زیارت کا شرف بھی ”انسان کاملw“ ہی کو عطا کیا گیا جو ایک ایسا امتیازی وصف ہے کہ اس سے پہلے کسی جن و مَلک کے حصہ میں نہیں آیا۔ جنات میں نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری نہ ہونا اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ اس میں ترقی پانے کے وہ کمالات موجود نہیں جو انسان میں قدرت نے ودیعت کردےے ہیں۔

مرکزی نکتہ:

خلاصہ یہ کہ عقل، فہم و فراست اور علم و معرفت یہ وہ اسباب و عوامل ہیں جو انسان کو دوسری مخلوقات پر برتری دلانے کے باعث ہیں۔ ذرا غور کیا جائے تو ان تینوں میںسے بھی ”علم“ وہ مرکزی نکتہ ہے جو دیگر کمالات اور خوبیوں کا سرچشمہ ہے۔ علم ہی ترقی کا زینہ ہے۔ علم ہی ہے جو جہالت کے اندھیروں میں روشنی کی شمع ہے۔ علم ہی ہے جو قوموں میں اخلاق اور تہذیب کو جنم دیتا ہے اور علم ہی ہے جو انسان کو اس راز تک رسائی دے سکتا ہے جس کی اسے زندگی بھر سے تلاش ہے۔ یعنی اپنی تخلیق کا راز اور دنیا کی ناپائیدار، فانی اور بے ثبات زندگی کے پس پردہ حقیقی مضمرات۔

فضائلِ علم:

٭…. ”دو قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کے بارے میں حسد کرنا جائز ہے:

1….ایک تو وہ جسے خدا نے مال دیا اور پھر اسے راہ خدا میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ دوسرا جسے خدا نے علم دیا چنانچہ وہ اس علم کے مطابق فیصلہ کرتا اور دوسروں کو سکھاتا ہے۔“                 ( مشکوٰة )

2…. ” جو علم کے راستوں پر چلتا ہے، اﷲ رب العزت اس کے لےے جنت کے راستے آسان کردیتے ہیں۔“

3…. ”علم اور حکمت و دانائی کی بات دانش مند آدمی کی گمشدہ پونجی ہے لہٰذا وہ اسے جہاں بھی پائے اس کا حق دار ہے۔“ (مشکوة شریف)

4…. ” علم کی تلاش میں نکلنا گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہے۔“   (مشکوة شریف)

5…. ”میں تو خود معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔“

(مشکوة شریف)

6…. ”خدا کے بندوں میں علماءہی خدا سے ڈرتے ہیں۔“     (سورہ فاطر)

7…. ”عبادت گزار پر عالم کو ایسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسی مجھے تمہارے میں سے ادنیٰ آدمی پر ہے۔“ (مشکوٰة شریف)

8…. ”اہل علم، انبیائے کرام کے وارث ہیں۔“                 ( مشکوٰة )

کون سا علم باعث شرافت ہے؟

ان فرامینِ مقدّسہ کو نظر غائر سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ جو علم انسان کے لےے باعث شرافت ہے یہ وہ علم ہے:

٭…. جو انسان کو اس کا مقصد تخلیق یاد دلاتا رہے۔

٭…. جو انسان کا رشتہ خدا سے جوڑے رکھے۔

٭….جو انسان کو اپنے خالق سے آشنا کردے۔

٭…. جو انسان کو اپنے خالق کا مخلص اور جانثار کارکن بنادے ۔

٭…. جو انسان کواپنی خداداد عقل و دانش کا اسیر بننے کی بجائے احکام ربانی کا غلام بنا دے۔

٭…. جو انسان کو انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کا فن سکھا دے۔

٭…. جو انسان کو اپنے فیصلوں میں علومِ نبوت کا پابند بنادے۔

٭…. جو انسان کو علوم نبوت کا علمبردار بنادے۔

دنیوی علوم و فنون کی حیثیت:

رہے دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے والے علوم و فنون! تو چونکہ ان کے بغیر کائنات ارضی میں حکومتی نظم و نسق قائم کرنا ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ وہ عقل حکمت اور دانائی پر بھی مشتمل ہیں اس لےے مقصد حیات بنائے بغیر صرف وسیلہ اور ضرورت کی حد تک ان کی تحصیل نہ صرف جائز بلکہ قابلِ مدح ہے اور صرف قابل مدح ہی نہیں بلکہ انسان ان کی تحصیل پر مامور بھی ہے۔

٭….” جو علوم و فنون دنیوی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں ان کا حصول مسلمان معاشرے کے لےے فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسے: طب، حساب، انجینئرنگ، صنعت و حرفت، زراعت و کاشتکاری، کپڑے بنانے کی صنعت، سیاست اور فاسد خون نکالنے کا پیشہ، ان سب پیشوں اور فنون کا علم حاصل کرنا فرض کفایہ ہے۔“

(ردالمحتار علی الدرالمختار: ۱/۸۰۱مقدمہ)

آخری بات!

ایک نیک اور منصف مزاج بادشاہ اپنی رعایا میں سے اسی فرد کو اپنا مقرب اور خاص الخاص مشیر بناتا ہے جو خاص کمالات اور مہارتیں رکھتا ہے۔ وزیر سمجھ دار ہو تواسے اس امر کا بخوبی ادراک ہوتا ہے کہ میرا یہ مقام و منصب میری خاص صلاحیتوں کے بل بوتے پر ہے لہٰذا وہ ان مہارتوں میں مزید نکھار پیدا کرنے کی کوشش کرتا اور اپنی حیثیت بحال رکھنے کے لےے ہر وقت بادشاہ کی خدمت اور اس کی اطاعت شعاری کو اپنی سعادت سمجھتا ہے۔ بصورت دیگر بادشاہ کی نظروں میں وہ اپنا مقام کھو دیتا ہے۔ اسی طرح چند خاص خوبیوں کی وجہ سے ہی اﷲ رب العزت نے انسان کو مخلوقات میں بلند مقام عطا کیا ہے۔ اب انسان صرف اسی بات پر اکتفا کرکے بے کار بیٹھ جائے کہ وہ اپنے رب کی برتر مخلوق ہے اور اسی گھمنڈ میں وہ اپنی ان خوبیوں اور مہارتوں کو کام میں نہ لائے تو یہ انتہائی حماقت، نادانی، ناشکری اور بے قدری کی بات ہوگی۔ لہٰذا انسان کو چاہےے کہ وہ عقل و دانش اور علم و معرفت کے حصول میں اپنی صلاحیتیں وقف کردے۔ اسے چاہےے کہ وہ عقل و دانش کا رشتہ علم و معرفت سے نہ توڑے، بلکہ دونوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلے۔ وہ اس حقیقت کا اچھی طرح ادراک رکھے کہ خالق کائنات کے نزدیک اس کا اعزاز و اکرام اور فضل و شرف انہیں باتوں سے مشروط ہے۔ بصورت دیگر وہ اپنے ان تمام اعزازات سے محروم اور کائنات میں اپنے حقیقی مقام و منصب سے معزول ہے!!!

فرشتوں سے بہتر ہے انسان ہونا

مگر لگتی ہے اس میں محنت زیادہ

اپنا تبصرہ بھیجیں