فتنہ مغرب

السلام عليكم ورحمۃ اللہ

عزیزانِ محترم 

دینِ اسلام کی اشاعت کے ساتھ ساتھ، دین میں پیدا کئے جانے والے شبہات اور اٹھائے جانے والے اعتراضات کا قلع قمع کرنا، اہل علم کی ذمہ داری ہے۔ تاکہ عوام الناس، دین اسلام کو الحق سمجھ کر قبول کریں۔ 

الحمد للہ! علماء امت نے اس کام کو ہر دور میں احسن طریقے سے انجام دیا۔ عقل پرستوں نے جس شکل میں بھی سر اٹھایا، اہل علم نے دلائل کے میدان میں ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیااور اسلام کا عَلم کبھی سرنگوں نہیں ہونے دیا۔ جب بھی کسی نے اسلام پر فکری حملہ کیا اور اسلامی نظریات اور عقائد کو خلط ملط کرنے کی کوشش کی تو علماءِ امت نے اُنہیں اُن ہی کے ہتھیاروں سے شکست دی اور اسلامی افکار و نظریات کو ہر طرح کی فکری آلائش اور غیر اسلامی نظریات سے محفوظ رکھا۔ 

جب اسلام جزیرۃ العرب سے پھیلتا ہوا روم و شام تک پہنچا تو اس وقت یونانی فلسفہ و منطق کا عروج تھا، قدیم سائنسی تحقیقات بے حد مقبول تھیں۔ لوگوں کے ذہن، یونانی فلسفہ اور قدیم سائنسی نظریات سے متاثر تھے۔ اس لیے ان لوگوں کے اعتراضات اور اسلام پر شبہات اسی بنیاد پر ہوا کرتے تھے۔مثلاً قدیم سائنس کا نظریہ تھا کہ زمین ساکن ہے، اس کے گرد کرہ ہوائیہ ہے، کرہ الماء اور کرہ النار ہے وغیرہ۔ اس لیے معراج النبی ﷺ پر اعتراض کیا جاتا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کروں سے آپ ﷺ کیسے گزرے اور ان کا خرق والتیام کیسے ہوا۔ اسی طرح جزء الذی لا یتجزی کی بحث سے قیامت کے اثبات و انکار پر دلائل دیئے جاتے تھے۔ 

عصر حاضر میں نہ تو یونانی فلسفیانہ افکار کی کوئی حیثیت باقی ہے اور نہ ہی قدیم ساہنسی نظریات کو قبول کیا جاتا ہے، اسی لیے آج کے دور میں اس طرح کے اعتراضات نہیں اٹھائے جاتے، کیونکہ جس ذہنیت و علمیت کی بنیاد پر اعتراض قائم کئے جاتے ہیں، وہ علمیت رد کی جاچکی ہے۔ 17 ویں صدی عیسوی کے بعد جب یونانی فلسفہ بے بنیاد ہو کر رہ گیا اور قدیم سائنسی نظریات رد کر دیئے گئے تو یونانی فلسفے کی جگہ جدید فلسفہ / فلسفہ مغرب نے لے لی اور قدیم سائنس کی جگہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی آگئی جو بہت سی ایجادات کا محرک بنی۔ 

دورِ حاضر میں اہل مغرب کی حیرت انگیز ترقی اور آنکھوں کو چندھیا دینے والی سائنسی ایجادات سے اقوامِ عالم بے حد متاثر ہیں، اسی لیے ان کی علمیت کو غالب علمیت تصور کیا جاتا ہے اور انہی کا فلسفہ اور تصور ِ حیات، دورِ حاضر میں مقبول ہیں اور اسی فلسفہ، اسی تصورِ حیات اور اسی علمیت سے متاثر ہو کر اسلام پر اعتراض اٹھائے جاتے ہیں اور دین میں شبہات پیدا کئے جاتے ہیں۔ چونکہ قدیم اعتراضات اور عصر حاضر کے اعتراضات کا محرک الگ الگ ہیں، ایک محرک یونانی فلسفہ اور قدیم سائنس ہے، دوسرے کا محرک فلسفہ جدید /مغربی فلسفہ ہے۔ اس لیے اعتراضات اور شبہات بھی الگ الگ ہیں۔ 

عصرِ حاضر کے اعتراضات کچھ اس طرز کے ہیں۔ مثلاً

1- مرد چار شادیاں کر سکتا ہے تو عورت کیوں نہیں 

2- اسلام عورتوں کو گھروں میں محبوس کیوں رکھتا ہے؟ 

3- طلاق کا حق صرف مرد کو کیوں؟ 

4 – اگر اسلام میں حق اظہارِ رائے ہے تو پھر انبیاء اور معزز ہستیوں پر تنقید کیوں گوارا نہیں کی جاتی۔

5 – عورتوں اور مردوں کے حقوق برابر کیوں نہیں ہیں؟ 

6 – مرد کی مرد سے شادی کیوں نہیں ہو سکتی؟

7 – اسلام اقلیتوں کے مساوی حقوق تسلیم کیوں نہیں کرتا؟ 

8 – وراثت میں مرد کے مقابلے میں عورت کا حصہ آدھا کیوں؟

9 – ہر انسان کو مذہبی آزادی ہے، مرتد کو اسلام قتل کا حکم کیوں دیتا ہے؟ ۔۔۔۔ وغیرہ

فلسفہ جدید سے محض یہ اعتراضات ہی نہیں اٹھتے بلکہ عصر حاضر میں رائج الوقت نظام، جمہوریت، سرمایہ دارانہ نظام، سوشل ازم، ہیومن رائٹس، سول سوسائٹی، ٹیکنو سائنس، لبرل ازم، سیکولر ازم، جیسی انہی بنیادوں پر کھڑے ہیں اور پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے قوانین بھی اسی فکر و فلسفہ کو ملحوظ خاطر رکھ کر بنائے جاتے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر تمام عدلیہ پابند ہے کہ کوئی ایسا حکم صادر نہ فرمائیں جو مغربی فلسفہ / فلسفہ جدید کے متصادم ہوں۔ 

فلسفہ جدید سمجھے بغیر، نہ تو ان اعتراضات کا غبار، اسلام سے چھٹ سکتا ہے اور نہ ہی نظامِ کفر کو کمزور کرنے کی کوئی سعی کارآمد ہوگی اور نہ مغربی یلغار سے اسلامی اقدار کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ 

ہمارا مذہبی معاشرہ بڑی تیزی سے لبرل، سیکولر ہو رہا ہے۔ عوام کو یہی ایک بات نہایت عاقلانہ، عادلانہ اور معقول بات کہہ کر سمجھائی جاتی ہے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ اسلامی نظریات کو متاثر کرنے والی ہوتی ہے۔ جب منبر اور محراب پر مکمل سکوت ہوتا ہے یا اس فکری حملہ کی حقیقت سے ناآشنائی کی وجہ سے یا ماحول سے متاثر ہوکر بعض اوقات اس کی تائید میں ایک دو جملے ادا کر دیے جاتے ہیں تو وہ خیال عوام میں راسخ ہو جاتا ہے۔

کفر کا یہ حملہ تمام ان حملوں سے زیادہ اشّد اور نقصان دہ ہے جو اسلامی تاریخ میں ہمیں ملتے ہیں۔ جب یونانی فکر و فلسفہ کی یلغار اسلامی علمیت پر ہوئی، اس وقت اسلام کی حالت یہ تھی کہ یہ تین براعظموں پر حکومت کر رہا تھا۔ اسلامی علمیت محض تصورات کی شکل میں ہی نہ تھی بلکہ اس کا مظہر خلافت کی شکل میں، حدود و قصاص کے نفاذ کی شکل میں اور شریعت کے نفاذ کی شکل میں موجود تھا۔ اسلام کا حسن و قبح واضح تھا۔ اس لیے یونانی فلسفہ، اسلامی علمیت کو متاثر نہ کر سکا۔ جیسا کہ اس نے مذہب عیسائیت کو متاثر کیا۔ مزید برآں، اُس وقت، اسلامی تہذیب، غالب تہذیب تھی، چنانچہ غالب تہذیب پر یہ حملہ غیر مؤثر ہو کر رہا۔ 

دوسرا بڑا حملہ تاتاریوں کی طرف سے تھا۔ انہوں نے کچھ ہی عرصہ میں مسلمان حکومتوں کو اپنے زیر اثر کر لیا تھا۔ ان کے پاس صرف گھوڑے، تلواریں اور خوں خواری تھی۔ مگر کوئی خاص فکر، نظریہئ حیات، علمیت و کتاب نہ تھی جو اسلامی علمیت کے سامنے قرار پکڑتی، جس سے عوام کو متاثر کیا جاتا۔ اس لیے ان کا تسلط زیادہ دیر نہ چل سکا بلکہ خود اسلام سے متاثر ہوئے، اور

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانوں سے

اس حیثیت سے مغربی یلغار اسلام پر تیسرا بڑا حملہ ہے۔ یہ نہ تو یونانی فلسفہ کی طرح صرف نظریاتی ہے اور نہ ہی تاتاریوں کی طرح محض سیاسی۔ اہلِ مغرب سیاسی تسلط کے ساتھ ساتھ فکری میدان میں بھی ایک خاص نظریہئ حیات کی طرف دعوت دے رہے ہیں۔ خاص قسم کے عقیدے، علمیت، خاص قسم کی طرزِ سیاست، اندازِ معاشرت اور خاص طریقہئ معیشت پر یقین رکھتے ہیں اور ایسا خاص نظامہائے زندگی جس نے مغربی فکر و فلسفہ سے جنم لیا ہے۔ اسی کو انسانی بقاء اور ترقی کا ضامن قرار دیا جاتا ہے اور اقوامِ عالم کو یہی باور کروایا جاتا ہے کہ دنیا میں انسانیت کی فلاح، ترقی، بقاء اور ارتقاء کا ضامن صرف وہ نظامِ زندگی ہے جس کی طرف اہلِ مغرب بلا رہے ہیں۔ مثلاً لبرل ازم، ہیومن ازم، سیکولرازم، جمہوریت، سرمایا دارانہ نظامِ معیشت، سول سوسائٹی کا قیام، انلائیٹنمنٹ (روشن خیالی)۔ 

اہل مغرب اپنے ان نظریات کے علاوہ تمام عقائد و افکار اور نظامِ زندگی خواہ وہ الہامی کتب سے ماخوذ ہوں یا غیر الہامی سے ان سب کو گمراہی اور جہالت قرار دیتے ہیں اور عصر حاضر میں ترقی، روشنی اور ہدایت انہی افکار اور نظاموں کو قرار دیا جاتا ہے جو اہل مغرب نے خاص علمیت کے تناظر میں قائم کیے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں