مکرہ طلاق کاحکم

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:121

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بندہ خیریت سے ہے اور خداوند کریم سے آپ کی خیریت  نیک مطلوب چاہتاہوں۔ بندہ جامعہ دارالعلوم  کراچی ہی کا فاضل ہے۔  اور جامعہ اشرف المدارس کراچی میں تخصص فی الافتاء سال دوم کا طالب  علم ہے ۔ ایک مسئلہ  میں کچھ الجھن  پیش آگئی ہے جس کے متعلق ہمارے رئیس دارالافتاء  استاذ مفتی  محمد نعیم صاحب  دامت برکاتھم  کو  بھی شرح صدر  نہیں ہورہا  انہوں نے استاذ محترم  مفتی محمود اشرف  صاحب دامت برکاتھم سے ملنے کو  فرمایا  بندہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا  اور مسئلہ سے متعلق الجھن  ذکر کی ۔ استاذ محترم سے  مسئلہ سے متعلق جو گفتگو ہوئی اس سے بھی  استاذ محترم مفتی محمد نعیم صاحب  دامت  برکاتھم  کو تشفی  نہ ہوئی  ۔انہوں نے براہ راست  آپ سے ملنے کے لیے فرمایا ۔ چنانچہ  بندہ  نے آپ سے  وقت لینے کے لیے آپ کے سیکریٹری ( جناب   رفعت صاحب ) سے رابطہ کیا تو انہوں نے  کہاکہ   براہ راست ملاقات مشکل ہوگی تحریری  طور پر اپنے مسئلہ  کو پیش کردیں  تو بہتر ہے ۔ چنانچہ  مذکورہ مسئلہ سے متعلق اپنی الجھن  تحریری طور  پر پیش کی جارہی ہے ۔ برائے مہربانی   ا س سے  متعلق  اپنی رائے سے مستفید  فرماکر مشکور  فرمائیں ۔

مسئلہ یہ ہے کہ عربی اور اردو فتاویٰ میں یہ مسئلہ مذکور ہے  کہ جب کسی  سے زبردستی طلاق  لکھوائی  جائے تو ایسی صورت میں  طلاق واقع  نہیں ہوتی ۔ اردو فتاویٰ میں جو مثالیں  ہماری نظر سے گزری ہیں  وہ سب ایسی  ہیں کہ جس میں مکرِہ ، مکرَہ کے سامنے موجود ہوتاہے ۔ا سے اغوا کرکے یا کہیں اور زبردستی   لے جاکر طلاق  نامہ وغیرہ  پر دستخط  کروائے جاتے ہیں۔ ایسی کوئی صورت ہمیں نہیں مل سکی  جس میں یہ ہو کہ مکرِہ کسی کو فون   پر قتل  کی دھمکی  دے کر کہے کہ اگر تم نے طلاق  نامہ پر دستخط  نہ کیے   تو تمہیں جان سے  ماردیں گے  ۔ جبکہ عربی  کتب میں  زبردستی کنایہ طلاق کا ذکر ہے  لیکن ایسی  کوئی صورت نظر  سے نہیں گزری  جس کی بناء پر  کوئی فیصلہ  کیاجاسکے ۔ لہذا پوچھنا یہ ہے کہ اکراہ کے محقق ہونے کے لیے مکرِہ کا مکرَہ کے سامنے موجود ہونا ضروری ہے یا نہیں ؟ اگر دور سے کسی  کو فون پر قتل کی دھمکی  دی جائے  اور اسے یقین  ہوکہ اگر  میں نے طلاق نامہ پر دستخط  نہ کیے تو مجھے جان سے ماردیں گے  تو کیایہ اکراہ میں شمار ہوگا  یانہیں ؟  بعض کتب کی عبارات  ( منسلکہ صفحہ میں مذکور ہیں ) سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر مکرِہ غائب ہوجائے تو اکراہ زائل ہوجاتا ہے ،

اسی طرح بعض کتب  میں صراحت  کے ساتھ عاجلاً کی قید بھی مذکور  ہے اور ان میں سب سے صریح  عبارت  ” الفقہ الاسلامی ”  کی ہے ان عبارات  سے معلوم ہوتا ہے  کہ اکراہ  کے محقق ہونے کی دیگر شرائط  میں سے ایک شرط  یہ بھی ہے کہ  مکرَہ  کو پورا یقین  ہو کہ اگر  میں نے اس کی بات نہیں مانی  تو وہ مجھے  فوراً اسی وقت جان سے مار دے گا  ، جبکہ  ” دارا لحکام  شرح  مجلۃ الاحکام  ” میں  مذکور  ہے کہ  مکرَہ  مطلقاً ہے عاجلاً ہویا اجلاً ہو۔ اور آگے  ( رد المختار ) کا حوالہ  ذکر کیاہے ۔ چنانچہ علامہ  شامی رحمہ اللہ  کی عبارت  سے بھی معلوم ہوتا ہے  کہ عاجلاً کی قید کوئی ضروری نہیں ہے۔ اب جہاں  ایک طرف  فتاوی شامی  اور  دارالحکام  کی عبارت  ہے وہیں  مبسوط  سرخسیؒ ، ھندیہ  ، خانیہ ، شرح المجلۃ ،مجمع الانھر  ، الفقہ الاسلامی ، جیسی کتب  کی عبارتیں بھی موجود ہیں  جو اس کے خلاف  ہیں ان عبارات  کے مابین تطبیق کی کیاصورت  ہوگی ان  عبارات سے  یہ بات واضح نہیں ہوپارہی کہ اکراہ کے متحقق ہونے کے لیے   مکرِہ کا مکرَہ  کے سامنے موجود ہونا ضروری ہے یانہیں ؟  

اور حال ہی میں جامعہ دارالعلوم  کراچی کا ایک فتویٰ آیاہے  ۔ جس میں آنجناب  کے دستخط  بھی موجود ہیں ۔ ا س فتویٰ میں  بظاہر  عرف کو  دارومدار بناتے ہوئے  یہ بات ذکر  کی گئی ہے کہ جہاں تک  موجودہ زمانے کا عرف  ہے تو اس میں اکراہ کے محقق کے لیے یہ ضروری نہیں  کہ مکرَہ  بوقت اکراہ مکِرہ  کے سامنے  موجود   ہو بلکہ  مکرَہ  کی غیر موجودگی   میں بھی اکراہ متحقق ہوسکتا ہے  اگر عرف  کو دارومدار  بنایا ہے  تو وہ عرف  کیاہے ؟ جس کی بناء پر نہایت  مستند  کتب  کی عبارتوں کو چھوڑڈیا گیا ہے مزید  مسئلہ کی وضاحت  کے لیے ہمارے دارالافتاء  میں جس مسئلہ سے متعلق مذکورہ الجھن  پیش آئی ہے اس کی فوٹو کاپی  بھی ساتھ ہی بھیجی  جارہی ہے۔ براہ کرم اس  تمام  تفصیل کو ملاحظہ  فرماکر آپ ہمیں اپنی قیمتی  رائے سے مستفید  فرمائیں ۔

جزاکم اللہ خیرا

دعاؤں کا طالب

انوار السادات ( طالب علم تخصص فی الافتاء سال دوم)

جامعہ اشرف المدارس کراچی)

الجواب حامداومصلیا

 واضح رہے کہ اکراہ کا دارومدار  بنیادی  طور پر دو چیزوں پر ہے ۔

( الف) مکرِہ  اس  فعل  کو وجود میں لانے پر قادر ہو جس کی  دھمکی دے رہا ہے۔

(ب)  مکَرہ کو ا س بات  کا یقین یا ظن غالب  ہو کہ اگر میں مکرِہ  کی بات نہ مانوں  تو مجھے  یہ قتل کردے گا یا شدید  زخمی کردے گا وغیرہ ۔

 یہ دونوں شرائط ایسی ہیں جو تمام  فقہائے احناف کے ہاں مسلم ہیں جیسا کہ  المبسوط  للسرخسی، شرح المجلہ للاتاسی، فتاوی ہندیہ ، الدر المختار ، مجمع الانہر  اور دوسری کئی کتابوں میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ اکراہ کے معتبر ہونے کے لیے ان دونوں  شرائط کا پااحت کی گئی ہے کہ اکراہ کے ملانہر بسوط تخط  بھی موجود ہیں ۔ ا س فتویٰ میں  بظاہر یا جانا ضروری ہے  عبارت یہ ہے :

 المبسوط للسرخسی  ۔ (39/24)

اب یہ دونوں شرائط جہاں پائی جائیں  گی  تو وہاں  اکراہ کا تحقق ہوگا اور جہاں ان میں سے کوئی ایک شرط  بھی نہیں پائی جائے گی  تو وہاں  اکراہ کا تحقق  نہیں ہوگا  ،ا سی لیے علامہ  علاؤالدین  الحصکفی ؒ  نے فرمایا کہ اکراہ مختلف  اشخاص کے اعتبار سے  مختلف ہوتا ہے ، عبارت یہ ہے :

 الدر المختار   ( 6/129)

کیونکہ بعض اوقات  کوئی شخص کسی ایک شخص پر تو اپنا فعل  واقع  کرسکتا ہے  لیکن ددسرے شخص پر وہ فعل   واقع نہیں کرسکتا،ا سی وجہ سے پہلے شخص  کے حق میں اکراہ  متحقق  ہوگا جبکہ دوسرے شخص کے حق میں اکراہ متحقق  نہیں ہوگا،اسی  طرح  بعض اوقات  مکروہ اس بات پر بھی قادر  ہوتا ہے کہ مکرَہ  اس کے سامنے  موجود نہ ہو مگر وہ ا س پر فعل اکراہ کا تحقق کرسکے  ، مثلا ً مکرہ  اس بات پر قادر  ہوکہ وہ کسی جدید ٹیکنالوجی  کے ذریعہ  مکرہ پر اس فعل  کو واقع  کردے  جس کی دھمکی  دے7 رہاہے ، یاکسی شخص کو بھیج کروھمکی  نافذ کردے   جیساکہ آج کل عام مشاہدہ ہے ،ا س وجہ سے ایسی صورت   میں اکراہ  معتبر ہوگا،ا سی طرح  اگر کوئی شخص کسی کوکہ اگر  آپ نے  اپنی بیوی  کو  تین دن  کے اندر طلاق   نہ دی  تو میں تجھے قتل  کردوں گا اور واقعۃً ا س کو قتل  کرنے پر قادر  ہو،ا ور مکرہ  کو ا س بات  کا یقین  یا ظن  غالب  بھی ہوکہ اگر میں نے بیوی کو طلاق  نہ دی تو یہ مجھے قتل  کردے گا  تو ایسی  صورت  میں اس  شخص نے اپنی بیوی  کو  تحریری  طور  پر تین طلاقیں  لکھ کردیں  تو کوئی طلاق  واقع نہیں ہوگی، کیونکہ  مکرہ کے لیے  ہر وقت ممکن  نہیں ہوتا کہ وہ اتنی مدت  کے اندر  اپنا گھر چھوڑ کر بیوی بچوں سمیت کسی دوسری جگہ  مستقل  طور پر منتقل ہوجائے  ۔

 جہاں تک  اکراہ کے لیے  عاجلاً  کی قید ہے تو ایسی شرط  نہیں جس پر اکراہ  کا تحقق موقوف  ہو  بلکہ اس کے بغیر  یعنی آجلاً بھی اکراہ  متحقق ہوسکتا ہے ،ا سی وجہ سے  بعض فقہائے احناف  نے عاجلاً کی قید نہیں لگائی ، نیز ان کے علاوہ  جن فقہائے کرام نے عاجلاً کی قید  لگائی ہے ان کے نزدیک بھی  وجہ یہ تھی کہ چونکہ آجلاً کی صورت میں مکرَہ  کو اپنے دفاع کا موقع حاصل ہوجاتا ہے  اور وہ طبعی طور پر ا س وقت مجبور  نہیں ہوتا اس وجہ سے اکراہ متحقق نہیں ہوگا، کمافی العبارۃ  المذکورہ۔۔۔۔الفتاوی الھندیہ۔ (35/5)

لیکن آج کل کے دور میں اکثر آجلاً بھی مکرَہ  ا س کام کو کرنے پر مجبور  ہوتا ہے  ، اس لیے کہ موجودہ زمانے میں عموماً یہ صورت پائی جاتی ہے  کہ پہلے دھمکی  دی جاتی ہے  اور ا س  کے  مطابق عمل نہ کرنے کی صورت میں آئندہ  کسی وقت  بھی اس  دھمکی کو عملی شکل دی جاتی ہے  ، جبکہ عموماً مکَرہ کے لیے ا س  علاقے  سے دوسری جگہ منتقل  ہونا بھی مشکل ہوتا ہے اور اپنی دفاع کے لیے اگر کوئی قانونوٓی  چارہ جوئی کرے ( مثلا ً پولیس  وغیرہ سے مدد طلب کرے)  تو ا س میں بھی  اس کے دفاع کا کوئی انتظام نہیں کیاجاتا  ،ا سی لیے  موجودہ زمانے  کے حساب سے  علامہ شامی ؒ  کی رائے  راجح معلوم ہوتی ہے۔ یعنی اکراہ کے تحققق  کے لیے مکر”ہ کا مکِرہ کے سامنے موجود ہونا ضروری نہیں ، بلکہ مکِرہ کی غیر موجودگی میں آجلاً بھی اکراہ کا تحقق ہوسکتا ہے بایں  طور پر کہ کام کرتے وقت  مکرہ کے دل میں یہ ظن غالب ہوکہ اگر میں یہ کام نہ کروں تو یہ لوگ مجھے قتل کردیں گے یا نقصان  پہنچادیں گے  اور  مکرِہ اس کو قتل یا نقصان  پہنچانے پر قادر  بھی ہو، اور حالات ایسے ہوں کہ جن میں مکَرہ  کے لیے بچاؤ کا سامان موجود نہ ہو اگر چہ ا س وقت  عملا ً قتل یا نقصان متحقق نہیں ۔

نثار اختر

جامعہ دارالعلوم کراچی

23 جمادی الثانیہ 1435 ھ

24 اپریل 2014

  

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/542921536077096/

 

اپنا تبصرہ بھیجیں