اورل سیکس کا حکم

السلام علیکم !

سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام  ا س مسئلے کے بارے میں کہ بیوی کے منہ میں اپنا آلہ تناسل ڈالنا درست ہے یا نہیں ؟

  جب کہ قرآن میں صرف حالت حیض میں  بیوی سے جماع  کرنے  کی ممانعت آئی  ہے احادیث  میں “جماع  فی الدبر ” کی ممانعت آئی ہے ۔ا س کے علاوہ کسی اور   طریقہ  جماع کی ممانعت  نہیں آئی  ہے ۔

قرآن وسنت  کی روشنی  میں راہنمائی  فرمائیں کہ اس کے بارے میں  کوئی ممانعت  آئی ہے  یا نہیں ؟ ہماری تحقیق کسی  حدیث  میں ا س کی ممانعت  نہیں آئی  ، اور جب ممانعت  نہیں  تو اس طرح کے کام  کرنے میں کوئی حرج تو نہیں ہونا چاہیے، آپ اس  بارے میں رہنمائی کریں ۔

 آپ سے گزارش ہے کہ قرآن  وحدیث  کی دلیل  کے ساتھ وضاحت  فرماکر عنداللہ ماجورہوں ۔ دلیل قرآن وحدیث  سے ہونی چاہیے  یا صحابہ کرام کے عمل سے ثابت  کریں ۔

السائل

عبداللہ خان

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب حامداومصلیاً

 اہل سنت والجماعت  کے نزدیک  کسی مسئلہ کا ثبوت  ادلہ شرعیہ ” قرآن   پاک ، سنت رسول ، اجماع  امت اور قیاس ” میں سے کسی ایک سے بھی  مل  جانا عمل کے لیے کافی  ہے۔ ا س لیے اگر  آپ  مذاہب اربعہ  میں کسی  ایک کے مقلد  ہیں تو آپ کا صرف قرآن  وحدیث  یا عمل صحابہ سے ہی دلیل  کا مطالبہ  کرنا  درست نہیں  ہے۔  اور اگر آپ ائمہ اربعہ  میں سے کسی  ایک کے مقلد  نہیں ہیں تو پھر  آپ کو مسئلہ مذکورہ قرآن  وحدیث  یا عمل صحابہ  میں سے کسی  ایک سے  ثابت  کرنا ہوگا ۔ ( اس لیے  آپ اس فعل کے جواز کے مدعی ہیں اور جن سے آپ سوال کررہے ہیں وہ مدعی علیہ ہیں۔  دلیل پیش کرنا مدعی کے ذمہ  ہوتا ہے  نہ  کہ  مدعی علیہ  کے ذمہ )  پھر ا س کی ممانعت  کو بھی ان شاء اللہ  دلائل سے ثابت  کردیاجائے گا ۔

اس کے بعد  سمجھے  کہ اسلام  دین فطرت  ہے،ا س کا ہر حکم  فطرت  کے عین مطابق  ہے  ،چاہے  ہمیں سمجھ آئے یا نہ آئے ،چنانچہ  شعبہ ہائے  زندگی کے ہر فعل  کی کامل راہنمائی دین اسلام  میں موجود ہے،ا نہی احکامات میں اپنی زوجہ  سے مباشرت  کے احکامات بھی ہیں ، مختلف  مواقع  میں آنحضرت ﷺ  کی  طرف سے مجامعت  اور منہیات واضح کردی گئی ہیں ۔

منہیات  میں بیوی کے ساتھ دبر میں جماع  کرنا اور حالت حیض  میں جماع کرنا شامل  ہے، اور پھر حالت حیض  میں  بھی فقط  جماع ہی منع ہے  ،ا س  کے علاوہ اپنی بیوی سے ہر طرح  کا نفع اٹھانا جائز ہے  ، شرعاً منع نہیں ہے ۔  لیکن اس صورت  میں بھی عقلاً وطبعاً صرف ان اعمال  کو  ہی پسند  کیاگیا ہے جو انسانیت  کے دائرہ کار میں داخل ہوں ، اور اگر کوئی فعل انسان کی انسانیت  سے نکل کر حیوانیت میں داخل ہوجائے تو وہ فعل شرعاً مذموم  ہوگا نہ  کہ محمود ، انہی حیوانیت والے افعال  میں ایک فعل  “میاں بیوی کا ایک دوسرے  کے اعضائے  تناسل کو چومنا،چاٹنا یا منہ میں لینا ” بھی ہے ۔

اس معاملہ میں شریعت  کا مزاج سمجھنے کی ضرورت  ہے، وہ اس طرح  کہ انسان اشرف المخلوقات  ہے،ا س کے اور حیوانات کے درمیان  ایک امتیازی  فرق وشان  ہے، اسی وجہ سے بہت سی احادیث  مبارکہ میں مسلمانوں کو حیوانات کے بہت سارے  افعال میں مشابہت اختیار  کرنے سےروکا گیاہے۔ مثلاً : سنن ابی داؤد میں ہے :

 آپ علیہ السلام   نے ارشاد فرمایا  : ” جب تم  میں سے  کوئی سجدہ کرے تو اپنےہاتھوں  کو کتے  کے ہاتھ پھیلا کر بیٹھنے کی  طرح نہ پھیلائے  “۔

سنن ابن ماجہ میں ہے :

آپ علیہ السلام  نے کتے کے بیٹھنے کی  طرح بیٹھنے سے منع فرمایا “

سنن النسائی میں ہے :

آپ علیہ السلام  نے ارشاد فرمایا : ” مجھے  کیاہوگیا کہ میں  تمہارے  ہاتھ  اٹھانے  کو ایسے دیکھ رہاہوں  جیسے  بدکے ہوئے گھوڑوں  کی  دمیں “َ

 سنن ابی داؤد میں ہے :

” آپ علیہ الصلاۃ والسلام  نے کوے  کے چونچ  مارنے کی طرح درندوں  کے پاؤں   بچھانے کی طرح،ا ونٹ کے بیٹھنے کی طرح افعال اختیار  کرنے سے منع فرمایا”َ

 مذکورہ بالا احادیث  میں جو ممانعت  وارد ہوئی  ہے اس پر غور  کیاجائے کہ جب شارع  علیہ السلام  کی طرف سے انسانوں  کو  جانوروں  کے عام افعال کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے سے منع  فرمایا گیا ، ( مثلا : بیٹھنے ، سجدہ  کرنے، وغیرہ میں )  تو پھر  جو خسیس اور گھٹیا افعال ہیں، مثلاً : “علی الاعلا ن مجامعت کرنا اور ایک دوسرے   کی شرمگاہ کو چاٹنا ” ان جانوروں کی مشابہت  کو کیسے گوار اکیا جاسکتا ہے ؟

نیز! یہ تو جانوروں کے ساتھ مشابہت سے بچنے  کے بارے میں تفصیل تھی۔  خود حضرت انسان  کے بارے میں ” جو اشرف المخلوقات ہے، جس کے تمام اعضاء  مکرم ومحترم ہیں “اسوہ  نبوی  اور تعلیمات  نبوی ﷺ کے سامنے رکھنا ضروری  ہے، صحیح البخاری اور سنن النسائی میں ہے  کہ آپ علیہ السلام  نے ارشاد فرمایا کہ  جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لیےبیٹھے تو اپنی شرمگاہ  کو اپنے دائیں ہاتھ سے  نہ چھوئے ۔ا ور دوسری  روایت میں ہے کہ دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کرے ۔

یعنی دائیں  ہاتھ  کے معزز ومکرم ہونے کی وجہ سے مذکورہ فعل  میں اس کے استعمال سے بچنے کی تاکید  فرمائی گئی ، تو پھر  ا س سے آگے  بڑھتے   ہوئے  چہرہ”  جو اعضائے انسانی میں سے سب  سے زیادہ اشرف ومکرم ہے ” کی تعظیم  وتکریم ہوگی ۔

ا س کا اندازہ  اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے چہرے  پر مارنے  سے صاف منع  فرمایا  ہے، حتی ٰ کہ میدان جنگ  میں  دشمن  پر غلبہ  حاصل ہونے کی صورت  میں  بھی اس  کے چہرہ کو مثلہ (  ناک ،کان ہونٹ وغیرہ  کاٹے  ) سے منع فرمایا ہے ۔

نیز! ا س کے ساتھ ساتھ  چہرہ  میں زبان ہے، جس سے اللہ رب العزت کا ذکر کیاجاتا ہے  اور قرآ ن مجید  کی  تلاوت کی جاتی ہے ،۔ا س میں عضو تناسل  ڈالنا  یہ کیسے گوارا ہوسکتا ہے ، اس کو نہ تو انسانی طبیعت گوارا کرتی  ہے اور نہ ہی  دینی فطرت  ۔

نیز ! اس  طرح  کے افعال سر انجام  دینے کا جذبہ  عموماً فحش  فلمیں  وغیرہ دیکھنے سے پیدا ہوتا ہے، اوراس میں غیر مسلمین کی مشابہت   بھی پائی جاتی ہے جس سے شرعاً منع کیاگیاہے ،ا یسا شخص ان نقالی میں اسی پر بس نہیں  کرے گا، بلکہ ان کے نقش قدم  پر چلتے ہوئے جانوروں  سے بدفعلی  کرنے جیسے لعنتی  فعل میں مبتلا ہوجائے گا ، خلاصہ یہ کہ یہ فعل گناہ ہے اور اس سے بچنا از حد لازم وضروری ہے ۔

جامعہ فاروقیہ  کراچی

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/541581029544480/

اپنا تبصرہ بھیجیں