تبدیل ماہیت اہم مسائل و فتاوی 

فقہیات

(قسط نمبر 2)

ماہیت کب بدلتی ہے؟

انقلاب کے تحقق اور اس کی وجہ سے حکم لگانے کے لیے ضروری ہے کہ بدلنے والی چیز کے اجزائے اصلیہ کی تحقیق کی جائے اور ان اجزاء میں بھی اس جز کی تعیین کی جائے جس کی وجہ سے حلت یا حرمت کا حکم اس پر لگایاجاتاہے، اس جزء کے انقلاب کے بعد اس پر دوسرا حکم لگے گا، یہ بات نہایت ہی غور وفکر کی متقاضی ہے۔

اب اگر کلی طور پر ماہیت تبدیل ہوگئی تو اس پر تو سارے فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ حکم شرعی بدل جائے گا، لیکن جزوی تبدیلی کے وقت حکم بدلتا ہے یا نہیں؟ اس میں فقہائے کرام کا اختلاف ہے۔

احناف کے علاوہ تقریباً سارے فقہاء جزوی تبدیلی سے حکم کی تبدیلی کے قائل نہیں ہیں، احناف کے یہاں بنیادی جزء کی تبدیلی ضروری ہے جس سے اس شئی کی شناخت ہوتی ہے اس کے بعد بعض اوصاف کا باقی رہنا مضر نہیں ہے، حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

”حقیقت منقلبہ کی بعض کیفیاتِ غیرمختصہ کا باقی رہنا مانع انقلاب نہیں“

مثلاً: ۱) شراب جب سرکہ بنتی ہے تو اس میں خمریت (نشہ کی صلاحیت) بدل جاتی ہے اور دوسرے خواص واثرات بھی بدلتے ہیں، لیکن رقّت باقی رہتی ہے، شریعت کو حلت وحرمت والے وصف سے ہی بحث کرنی ہے، اس لیے صرف ایک وصف کی تبدیلی سے ہی حلت کا حکم لگادیتی ہے، اس لیے کہ حرمت کا حکم لگانے کے لیے بھی صرف ایک ہی وصف کو علت قرار دے کر حرام ہونے کا حکم لگاتی ہے۔

۲) حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہم نے ناپاک تیل یا چربی سے بنے صابن میں عموم بلویٰ کو علت بنایا ہے، نہ کہ انقلابِ ماہیت کو، اس لیے کہ صابن میں دُسومت باقی رہتی ہے، مولانا فرماتے ہیں:

صابن میں تیل اور چربی اگر مل جائے تو تیل اور چربی کااثر باقی رہتا ہے، غالباً اسی سے دسومت پیداہوتی ہے اس لیے بہ ظاہر یہ کہنا دشوار ہے کہ صابن میں تیل اور چربی کا وجود معدوم ہوچکا ہے، اسی لیے فقہائے کرام نے جہاں بھی تحویلِ حقیقت کے ذیل میں ناپاک تیل اور چربی سے بنے ہوئے صابن کا ذکر کیا ہے، وہاں یہ بات بھی کہی ہے:  انَّه یُفْتیٰ به لِلْبَلْویٰ“ (ردالمحتار: ۱/۱۹، البحرالرائق:۱/۴۹۴) گویا ابتلائے عام کی وجہ سے صابن میں یہ بات مان لی گئی ہے کہ انقلابِ ماہیت کی وجہ سے اب اس تیل اور چربی کی نجاست کا حکم باقی نہیں رہا“ (جدید فقہی تحقیقات: ۱۰/۱۱۱، مکتبہ نعیمیہ دیوبند)

حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری رحمہ اللہ  اور حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ  کے فتاویٰ کو بہ نظر غائر دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ناپاک چربی والے صابن میں حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی رحمہ اللہ  انقلابِ ماہیت کو تسلیم کرکے صابن کے استعمال کو جائز کہتے ہیں (کفایت المفتی: ۲/۳۳۴، چوتھا باب) اور حضرت مولانا سہارنپوری رحمہ اللہ  انقلابِ ماہیت کو فی الفور تسلیم نہیں کرتے (فتاویٰ مظاہرعلوم:۱/۲۲) بعد مرورِ زمان جب کہ صابن خشک ہوجائے اور اس کی شوریت (کھاراپن) اس کے دُہن (تیل) کو منقلبُ الحقیقة کردے (ایضاً) تو اس کو طاہر کہتے ہیں اور اس کے استعمال میں مضائقہ نہیں سمجھتے۔

انقلابِ ماہیت کی کلی اور جزوی صورتیں :

انقلابِ ماہیت میں کبھی تو سارے اجزاء کا مکمل طور پر انقلاب ہوجاتا ہے اور کبھی بعض اجزاء کا انقلاب ہوتا ہے اور بعض کا نہیں، مکمل طورپر انقلاب کی مثالیں درج ذیل ہیں:

۱- گوبر یا گوہ جل کر راکھ ہوجائے۔(حلبی کبیر:ص/۱۸۸)

۲-حیوان نمک کی کان میں گر کرنمک بن جائے۔ (ایضاً)

۳- نجاست زمین میں مدتوں دفن رہنے کے بعد مٹی ہوجائے۔ (مجمع الانہر:۱/۶۱)

جزوی انقلاب کی مثالیں درج ذیل ہیں:

۱- شراب سرکہ ہوجائے تواس میں نشہ کی استعداد ختم ہوجاتی ہے، البتہ رقت وغیرہ باقی رہتی ہے۔ (کفایت المفتی:۲/۳۳۴)

۲- پھلوں کاجوس شراب ہوجائے تو اس میں نشہ کی استعداد کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ بقیہ بعض حقیقتیں باقی رہتی ہیں۔

۳- ناپاک تیل یا چربی صابن بن جائے تواس میں دُہنیت فی الفور باقی رہتی ہے، البتہ وہ مدتِ دراز کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ (فتاویٰ مظاہر علوم:۱/۲۱)

۴- خون مشک ہوجائے تو رنگ باقی رہتا ہے، بقیہ اوصاف بدل جاتے ہیں۔

۵- علقہ جب مضغہ بن جائے تو اس میں سابقہ لزوجت (لیس دار ہونا) باقی رہتی ہے۔

۶- لید یا گوبر یا کوئی گندگی کنویں کی دیوار سے لگ کر مدتِ دراز کے بعد کالی مٹی (کائی) ہوجائے تو اس میں بھی رنگ باقی رہتا ہے۔ (ردالمحتار:۱/۲۳۹، رشیدیہ)

انقلابِ ماہیت میں مسالکِ فقہاء :

فقہائے اربعہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر انقلابِ ماہیت کلی طور پر ہوجائے تو حکم شرعی میں تبدیلی ہوگی، البتہ جزوی تبدیلی اگر ہوجائے تو اس میں احناف کے نزدیک حکم شرعی میں تبدیلی ہوگی، رد المحتار میں ہے:

”.. لأنَّ الشَّرْعَ رَتَّبَ وَصْفَ النِّجَاسَةِ عَلٰی تِلْکَ الْحَقِیْقَةِ وَتَنْتَفِی الْحَقِیْقَةُ باِنْتِفَاءِ بَعْضِ أجْزَاءِ مَفْہُوْمِہَا، فَکَیْفَ بِالْکُلِّ فَانَّ الْمِلْحَ غَیْرُ الْعَظْمِ وَاللَّحْمِ، فاذَا صَارَ مِلْحًا تَرَتَّبَ حُکْمُ الْمِلحِ“․ (رادالمحتار:۱/۲۳۹، رشیدیہ)

ترجمہ: شریعت نے نجاست کا حکم اس ماہیت پر لگایا ہے اور ماہیت بعض اجزاء کے معدوم ہونے سے معدوم ہوجاتی ہے، تو جب سارے اجزاء ہی معدوم ہوجائیں تو حکم کیوں نہیں مرتب ہوگا، نمک کی حقیقت ہڈی اور گوشت کے علاوہ ہے، تو جب جانور نمک ہوگیا تو اس پر نمک کا حکم لگ جائے گا۔

مالکیہ اس مسئلہ میں احناف کے ساتھ معلوم ہوتے ہیں۔ (شرح کبیر:۱/۵۰ -تا-۵۸)

شوافع اورحنابلہ جزوی انقلابِ ماہیت سے حکم شرعی کے بدلنے کے قائل نہیں ہیں۔ (دیکھیے: روضة الطالبین:۱/۱۳۷، الممتع شرح المقنع: ۱/۲۶، المغنی:۱/۶۵)

احناف میں امام ابویوسف رحمہ اللہ کا میلان بھی شوافع کے مسلک کی طرف ہے۔

(مستفاد از مضمون مفتی اشتیاق احمد قاسمی مدظلہم)

ناشر :دارالریان کراتشی

اپنا تبصرہ بھیجیں