تدفین کے بعد قبر پر اذان دینا

اسلام علیکم ۔
ایک مسلہ ہے جسکی تفصیلی وضاحت درکار ہے برائے مہربانی وقت نکال کر وضاحت کریں ۔آج کل جنازہ دفن کرنے کے بعد قبر پر اذان دیے جانے کا رواج پرورش پا رہا ہے اس عمل کی شریعت میں کیا حیثیت ہے ؟

الجواب حامداومصلیاً

تدفین کے بعد میت کے قبر پر اذان کا ثبوت  نہ  تو ہمارے نبی صلی الله علیه وآله وسلم سے ہے  نہ  تو صحابہ کرام رضوان الله اجمعین نه تابعین رح نہ تبع تابعین رح سے ملت
اس مبارک دور میں قبر پر اذان جائز نہ  ہوئی بلکہ کئی صدیاں گزرنے کے بعد اسے جائز کے والے پیدا ہوئے بڑی افسوس کی بات ہے یہ  اصل قرآن و سنت سے لاعلم ہیں ۔
اذان ایک خاص عبادت ہے  اور اس کے لئے شریعت مقدسہ  میں خاص مواقع مقر ر کئے گئےہیں  ان
سے تجاوز کرنا حدود الله سے تعدی اور معصیت ہے  اگر ایسی ترمیمیں جائز ہوتی تو پهر عیدین کی نماز کے لئے بهی اذان و اقامت درست ہوتی اس مسئلے پهر اہل سنت والجماعت کے تمام فقہاء کرام متفق ہیں 
امام غرناطی رحمہ الله لکهتے ہیں :
ومن ذلک الاذان والاقامته فی العدین قد نقل ابن عبدالبر اتفاق العلماء علی ان لا اذان ولا اقامته فیها 
* کتاب الاعتصام جلد دوم *
یہی  وجہ  ہے  کہ حضرات فقهاء احناف رحمهم الله قبر پر خلاف سنت امور کا سختی سے انکار کرتے ہیں۔ 
حضرت امام ابن همام الحنفی رحمه الله تعالی اپنی بے نظیر تالیف میں لکهتے ہیں۔
( ویکره عند القبر کل مالم یعهد من السّنته والمعهود منها لیس الازیارتها والدعاء عندها قائما کما کان یفعل صلی الله علیه وسلم فی الخروج الی بقیع و یقول السلام علیکم دارقوم مئومنین وانا انشاءالله بکم لاحقون اسئال الله لی ولکم العافیته 
 کتاب: فتع القدیر جلد دوم ، طبع مصر 
اور قبر کے پاس هر وه چیز مکروه ہے  جو سنت سے ثابت نہ  ہو اور ثابت من السنه صرف قبروں کی زیارت ہے اور ان کے پاس کهڑے ہوکر دعا کرنا جیسے که جناب نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم جنت البقیع میں جاکر کیا کرتے تهے اور وہاں فرمایا کرتے تهےکہ  سلامتی ہوتم پر اے مومنوں کی بستی میں رہنے  والو اور ہم بهی ان شاءالله تم سے ملنے والے ہیں  میں اپنے اور تمهارے لئے الله تعالی سے عافیت کی دعا کرتا ہوں.
اسی طرح سے دیگر معتبر کتب فتاوی میں الدرالمختار جلد اول ، فتاوی عالمگیری جلد اول ، البحرالرائق جلد دوم اس سے بهی صراحت کے ساته معلوم هوتا هے که اذان قبربلکہ  اس قسم کے وه جملہ  مراسم جو سنت سے ثابت نہیں  ” قبر کے پاس مکروه ” ہے ۔
فتاوی شامی جلد اول میں ہے کہ  ( وقد صرح ابن حجر رحمه الله فی فتاواه بانه بدعته )
علامه ابن حجر رحمه الله نے اس کی تصریح کی ہے  کہ قبر پر اذان دینا بدعت ہے ۔
علامه شامی رحمه الله تعالی نے بهی اس کی صراحت فرمائی ہے کہ اذان کهنا سنت نہیں ہے۔
میت کو قبر میں لٹانے کے وقت یا اس کے بعد اذان کہنا ثابت نہیں۔ جن مواقع پر اذان کہنا ثابت ہے ان کے علاوہ اپنی طرف سے کسی جگہ اذان کہنا بدعت ہے، لہٰذا دفنانے کے وقت اذان کہنا ناجائز ہی نہیں بلکہ بدعت ہے، علامہ شامی تنبیہ کے تحت تحریر فرماتے ہیں کہ میت کو قبر میں لٹاتے وقت اتارنے والے بسم اللہ وباللہ وعلی ملة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں اس کے علاوہ اذان وغیرہ کہنا مسنون نہیں ہے بلکہ علامہ ابن حجر نے اپنے فتاویٰ میں اس کی تصریح کی ہے کہ یہ بدعت ہے، اور جو لوگ مولود (وقت ولادت) پر قیاس کرتے ہوئے اس وقت اذان کہتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں۔
(شامی: 1/660) 
والله اعلم بالصواب
 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں