طلاق نکاح نفقہ

فتویٰ نمبر:362

علمائے کرام سے مابعد الطلاق سامان کے لین دین کے سلسلہ میں رہنمائی درکار ہے متوسط گھرانوں کے درمیان شادی کے دوسرے دن ہی سے لڑکے کی ماں نے جہیز کے سامان میں عیب جوئی اور جہیز میں ٹی وی ایئر کنڈیشنر اور فریج وغیرہ نہ آنے پر طعن و تشنہ کا سلسلہ شروع کردیا ۔ شادی کے کچھ ہی دن بعد طبعیت خرابی کی وجہ سے لڑکی نے دو تین دن اپنے میکہ میں  گذارے ،شوہر یا سسرال اور شوہر کی جانب سے کسی قسم کے اچھے سلوک نہ ملنے کے باوجود لڑکی نے کبھی کسی قسم کی بد زبانی یا حکم عدولی نہیں کی اور انتہائی نرمی اور خوشامد کے ساتھ شوہر سے ناراضگی کی وجہ معلوم کرتی رہی ۔

ایک مرتبہ پھر لڑکی اپنے میکہ میں بیماری کی وجہ سے دو چار دن کیلئے آئی تو شوہر یا سسرال والوں کی طرف سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں کیا گیا اور نو ،دس مہینہ میں لڑکی کے تایا جو دبئی میں رہتے ہیں انہوں نے متعدد بار لڑکے کے والد سے دبئی دے اور کراچی آکر رابطہ کرکے درخواست کی کہ اس مسئلہ پر گفت و شنید کرکے کسی بھی طرح یہ گھر آباد کردیا جائے لیکن ہر مرتبہ لڑکے کے والد نے اس مسئلہ پر ملاقات کرنے اور گفتگو کرنے سے گریز کیا اور یہی کہا کہ مصلحت کا تقاضہ ہے کہ دو ،تین مہینہ کے بعد اس مسئلہ پر بات ہوگی اس طرح تقریباً نو، دس مہینہ گذرگئے ،بالآخر لڑکی کے بزرگوں نے برادری کے مصالحتی بورڈ کے ایک ممبر سے رابطہ کرکے درخواست کی کہ لڑکی کا گھر آباد کرنے میں مصالحتی کردار ادا کریں مصالحتی بورڈ کے ممبر صاحب نے لڑکے کے چچا سے رابطہ کرکے درخواست کی کہ لڑکے کے والد سے اجازت حاصل کریں کہ وہ ان ممبر کو مصالحتی بورڈ کی دخل اندازی اور مصالحتی کردار ادا کرنے پر تیار ہیں یا نہیں ۔

اس رابطہ کے فوراً بعد لڑکے کی طرف دے تحریر کردہ طلاق نامہ روانہ کردیا گیا ۔اس طلاق نامہ میں صرف یہ تحریر کیا گیا کہ میں سمجھتا ہوں کہ میں تمھارے ساتھ گذر نہیں کرسکتا لہذا میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ۔

اس طرح شادی سے ایک سال کے اندر اندر یہ شادی طلاق پر ختم ہوگئی ۔

وضاحتاً عرض ہے کہ آٹھ ،نو مہینہ جو لڑکی نے اپنے میکہ میں گذارے اس عرصہ میں لڑکی نے شوہر کو متعددبلکہ بے گنتی مرتبہ فون کرکے بات کرنے کی کوشش کی ۔لیکن فون پر نمبر دیکھ کر یا آواز سنتے ہی شوہر کی طرف سے سلسلہ منقطع کردیا گیا ،یہاں تک کہ لڑکی نے موبائل فون پر شوہر کیلئے محبت اور التفات کے پیغا م بھی بھیجے اور عید پر T.C.S کے ذریعہ پھولوں کا گلدستہ بھی بھیجا۔

بہرحال اب طلاق کے بعد مندرجہ ذیل معاملات پر قرآن و حدیث کی روشنی میں سامان کے لین دین کے سلسلہ میں رہنمائی درکار ہے ،مزید وضاحۃً تحریر ہے کہ لڑکی نے کبھی اور کسی بھی طریقہ سے علیحدگی کا مطالبہ نہیں کیا ۔

سوال(۱تا ۳):

۱  لڑکے پر مہر کی ادائیگی لازم ہے یا نہیں ۔

۲  شادی سے طلاق تک لڑکے نے کوئی جیب خرچ لڑکی کونہیں دیا اور نہ ہی کوئی کپڑا بنایا ،شادی سے طلاق تک کی مدت کا خرچہ لڑکے کو ادا کرنا چاہئے یا نہیں ؟

۳  منگنی سے شادی تک لڑکے کی طرف سے جو زیور یا پار چہ جات ،تحائف ،نقد رقم اور مختلف اشیاءلڑکی کو دی گئیں وہ لڑکی کی ملکیت ہیں یا نہیں ؟

مندرجہ سوالات کے جوابات قرآن ِ پاک و حدیث کی روشنی میں حوالہ جات کے ساتھ درکار ہیں ۔

الجواب حامداً ومصلیاً

صورتِ مسؤلہ میں خط کشیدہ الفاظ کی رو سے جب شوہر نے مذکورہ الفاظ تحریر کئے تو اس سے اسکی بیوی کو ایک طلاق واقع ہوگئ(۱)۔

۱  چونکہ نکاح کے بعد رخصت ہوکر لڑکے کے گھر چلی گئی تھی اس لئے اگر اب تک شوہر نے مہر ادا نہ کیا ہو تو شرعاً اس پر کامل مہر ادا کرنا لازم ہے (۲)۔

۲ بوقتِ نکاح تحریراً یا زبانی طور پر اگر زوجین کے درمیان ماہانہ یا ہفتہ واری یا یومیہ کوئی جیب خرچ وغیرہ متعین کرکے معاہدہ کیا گیا تھا لیکن وہ ادا نہیں کیا گیا  تو شرعاً اس کے حساب سے اب اسکی ادائیگی شوہر پر لازم ہے (۳)۔لیکن اگر تقریری یا تحریری معاہدہ اس قسم کا نہیں ہو تھا تو شرعاً اگرچہ یہ شوہر کی شرعی و اخلاقی ذمہ داری تھی تاہم یہ اس کے ذمہ قرض نہیں تھا اس لئے اسکی ادائیگی شوہر پر قضاءً لازم نہیں ۔

۳ منگنی سے شادی تک جو تحائف اور نقد رقم لڑکے یا اس کے والدین اور اھلِ خانہ کی طرف سے لڑکی کو دی جاتی ہیں وہ بہر صورت لڑکی ہی کی ملکیت ہوتی ہیں (۴)،البتہ جو زیور اور کپڑے وغیرہ شادی کے موقع پر لڑکے یا اسکے والدین کی طرف سے لڑکی کو دیئے جاتے ہیں اس کا مدار عرف اور دستور پر ہے اگر عرف و دستور عاریتاً  دینے کا ہو تو وہ لڑکے کی ملکیت ہوگی اور اگر عرف تملیک کا ہو تو لڑکی کی ملکیت ہونگی (۵)۔

چونکہ سائل اور اصحاب معاملہ کا تعلق جمعیت پنجابی سوداگر برادری سے ہے اس لئے اس برادری کے عرف کے مطابق یہ تمام زیور اور پارچہ جات لڑکی کی ملکیت ہونگے اور شوہر اور اس کے والدین کو اسکی واپسی کا مطالبہ کرنا یا اسکو ان سے روک لینا شرعاً درست نہیں کیونکہ اس برادری کا عرف بوقت شادی لڑکی کو مالک بناکر دینے کا ہے(۶) اور اسکی واپسی کا مطالبہ صرف بوقتِ طلاق بغرض نزاع کیا جاتا ہے اسکے علاوہ کبھی بھی نہیں ہوتا

التخريج

(۱) فتح القدير للمحقق ابن الهمام الحنفي – (8 / 11)

فَالصَّرِيحُ قَوْلُهُ : أَنْتِ طَالِقٌ وَمُطَلَّقَةٌ وَطَلَّقْتُك فَهَذَا يَقَعُ بِهِ الطَّلَاقُ الرَّجْعِيُّ

الهداية في شرح بداية المبتدي – (1 / 225)

 فالصريح قوله أنت طالق ومطلقة وطلقتك فهذا يقع به الطلاق الرجعي

البناية شرح الهداية – (5 / 306)

 فالصريح قوله: أنت طالق، ومطلقة، وطلقتك، فهذا يقع به الطلاق الرجعي

(۲) الدر المختار – (3 / 42)

وإن كانت الفرقة بعد الدخول وجب لكل واحدة مهر كامل

البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي – (4 / 19)

فَإِذَا دَخَلَ بِهَا، وَجَبَ مَهْرٌ كَامِلٌ

شرح فتح القدير – (3 / 383)

فلما دخل بها وجب مهر كامل

البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي – (3 / 250)

 إنْ كَانَتْ مَدْخُولًا بِهَا يَلْزَمُهُ مَهْرٌ كَامِلٌ

(۳) الدر المختار – (3 / 594)

والنفقة لا تصير دينا إلا بالقضاء أو الرضا

تنقيح الفتاوى الحامدية – (1 / 490)

وَالنَّفَقَةُ لَا تَصِيرُ دَيْنًا إلَّا بِالْقَضَاءِ أَوْ الرِّضَا

(۴) الفتاوى الهندية – (1 / 327)

وَإِذَا بَعَثَ الزَّوْجُ إلَى أَهْلِ زَوْجَتِهِ أَشْيَاءَ عِنْدَ زِفَافِهَا مِنْهَا دِيبَاجٌ فَلَمَّا زُفَّتْ إلَيْهِ أَرَادَ أَنْ يَسْتَرِدَّ مِنْ الْمَرْأَةِ الدِّيبَاجَ لَيْسَ لَهُ ذَلِكَ إذَا بَعَثَ إلَيْهَا عَلَى جِهَةِ التَّمْلِيكِ، كَذَا فِي الْفُصُولِ الْعِمَادِيَّةِ.

(۵)الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (5 / 696)

وَفِي الْفَتَاوَى الْخَيْرِيَّةِ سُئِلَ فِيمَا يُرْسِلُهُ الشَّخْصُ إلَى غَيْرِهِ فِي الْأَعْرَاسِ وَنَحْوِهَا هَلْ يَكُونُ حُكْمُهُ حُكْمَ الْقَرْضِ فَيَلْزَمُهُ الْوَفَاءُ بِهِ أَمْ لَا؟ أَجَابَ: إنْ كَانَ الْعُرْفُ بِأَنَّهُمْ يَدْفَعُونَهُ عَلَى وَجْهِ الْبَدَلِ يَلْزَمُ الْوَفَاءُ بِهِ مِثْلِيًّا فَبِمِثْلِهِ، وَإِنْ قِيَمِيًّا فَبِقِيمَتِهِ وَإِنْ كَانَ الْعُرْفُ خِلَافَ ذَلِكَ بِأَنْ كَانُوا يَدْفَعُونَهُ عَلَى وَجْهِ الْهِبَةِ، وَلَا يَنْظُرُونَ فِي ذَلِكَ إلَى إعْطَاءِ الْبَدَلِ فَحُكْمُهُ حُكْمُ الْهِبَةِ فِي سَائِرِ أَحْكَامِهِ فَلَا رُجُوعَ فِيهِ بَعْدَ الْهَلَاكِ أَوْ الِاسْتِهْلَاكِ، وَالْأَصْلُ فِيهِ أَنَّ الْمَعْرُوفَ عُرْفًا كَالْمَشْرُوطِ شَرْطًا اهـ.

(۶)الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (3 / 153)

 قَالَ فِي الْفَتْحِ: وَاَلَّذِي يَجِبُ اعْتِبَارُهُ فِي دِيَارِنَا أَنَّ جَمِيعَ مَا ذُكِرَ مِنْ الْحِنْطَةِ وَاللَّوْزِ وَالدَّقِيقِ وَالسَّكَرِ وَالشَّاةِ الْحَيَّةِ وَبَاقِيهَا يَكُونُ الْقَوْلُ فِيهَا قَوْلَ الْمَرْأَةِ لِأَنَّ الْمُتَعَارَفَ فِي ذَلِكَ كُلِّهِ أَنْ يُرْسِلَهُ هَدِيَّةً وَالظَّاهِرُ مَعَهَا لَا مَعَهُ،

اپنا تبصرہ بھیجیں