رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بحیثیت عظیم سیاسی راہنما

“سترھواں سبق”

“رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”بحیثیت عظیم سیاسی راہنما”

“سیاست” کا لفظ”ساس” سے ماخوذ ہے-“ساس” ایک یونانی لفظ ہے جسکے معنی ہیں”شہر اور شہری”

“عربی لغت” میں”سیاست “فن حکومت” اور تدبیر و انتظام” کو کہا جاتا ہے- “اہل مغرب” کی اصطلاح میں”سیاست”فن حکومت”کا نام ہے-چاہے طریقہء کار جو بھی ہو- جبکہ” اسلام” کی نظر میں سیاست” ایک آئینی٫قانونی اور جامع لفظ ہے٫جس کے کئ عناصر ہیں- جب یہ تمام عناصر موجود ہوں تو وہ “اسلامی سیاست” ہے ورنہ وہ صرف سیاست ہے-اسلامی سیاست نہیں-

“اسلام اور سیاست کا رشتہ”

“اللّٰہ تعالٰی” نے جب سیدنا آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجا تو انہیں جہاں اپنا پہلا نبیء برحق بنا کر بھیجا وہیں ان کو ایک منظم حکمران بھی بنا کر بھیجا- چنانچہ “انی جاعل فی الارض خلیفہ” کی تفسیر میں”منصب نبوت”اور” منصب سیاست”دونوں ہی شامل ہیں

“انبیاء بنی اسرائیل میں

سیدنا یوسف علیہ السلام٫ سیدنا داؤد علیہ السلام٫ سیدنا سلیمان علیہ السلام٫سیدنا موسیٰ علیہ السلام٫اور سیدنا یوشع بن نون علیہ السلام کے بارے میں “قرآن کریم” کی واضح نصوص موجود ہیں کہ وہ جہاں”نبی اور رسول” تھے وہیں اپنی اپنی قوموں کے لئے”حاکم اور منتظم” بھی تھے-

“قرآن مجید” میں”نبیء کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے”4″اعلیٰ مناصب”3″سے زائد بار ذکر کئے گئے ہیں-

1-“تلاوتِ قرآن”2-تعلیم الکتاب (سیرت وسنت)

3″-تزکیہء نفس(تصوف و سلوک و احسان)4″-تعلیم حکمت”-تعلیم حکمت” سے اس جگہ مراد” سیاست اور انتظامی امور” میں فہم و فراست و بصیرت” ہے-

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ “رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”علم و عمل٫حق و صداقت٫اور نبوت ورسالت کا پیکر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بیمثال٫باکمال اور مثالی سیاستدان اور بہترین منتظم اور حکمران تھے-

“حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم” کی سیاسی زندگی کی ابتداء”

“آپ صل اللہ علیہ وسلم” نے قبل از ہجرت”مکی زندگی” میں ہی”سیاست” کی طرح ڈال دی تھی-

اس سلسلے کی” پہلی کڑی “ہجرتِ حبشہ” ہے- جسکی بدولت”اسلام”ایشیاء سے افریقہ” تک پہنچ گیا-

“دوسری کڑی” بیعتِ عقبہء ثانیہ”(مسلمانوں سے لیا گیا یہ اقرار)”ہر حال میں سننا اور اطاعت کرنا ہمارا شیوہ رہے گا” ایک عظیم الشان اور مثالی سلطنت کی “خشت اول” ثابت ہوا-اس موقع پر اسلام لانے والوں کے مطالبے کے باعث”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے” حضرت مصعب بن عمیر رضی اللّٰہ عنہ” کو اپنا سیاسی سفیر بنا کر “یثرب” روانہ کیا-جب انکی کوششیں “ثمر آور” ہوئیں تو”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے” بیعتِ عقبہء ثانیہ” کے بعد ہجرت کرتے ہی باقاعدہ سیاست کا آغاز فرمایا-

“سیاست” رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے نمایاں پہلو”

ویسے تو “رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کی حیات طیبہ قدم بقدم”کامیابیوں سے معمور ہے جن کا احاطہ کرنا” عقل انسانی” سے باہر ہے-یہاں صرف “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی” سیاسی زندگی” کے چند نمایاں پہلو اور انکے ثمرات ذکر کرنے پر اکتفا کیا جارہا ہے-

1-“داخلی استحکام”

“ہجرتِ مدینہ منورہ” کے بعد”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے” کفار مکہ” کی ایذا رسانیوں کا انتقام لینے کے بجائے اعلیٰ درجے کی دانائی و عقلمندی سے کام لیتے ہوئے مسلمانوں کا “دفاعی نظام”مضبوط کرنے کو ترجیح دی- “مدینہ منورہ” میں وفاقی شہری مملکت” کا قیام عمل میں لا کر” مسلمانوں کی شیرازہ بندی کی- مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائ چارہ قائم کرنے اور یہود سے سیاسی سمجھوتہ کرنے کے لئے”50″ دفعات ہر مشتمل ایک” دستور” مرتب کیا-

“رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”بحیثیت سیاسی راہنما”

“خارجہ پالیسی”

“پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلَّی اللّٰہ علیہ وسلم” کی”خارجہ پالیسی” کا شاہکار”صلحء حدیبیہ” کا معاہدہ ہے-“سن6ھ” میں” مدینہء منورہ”شمال و جنوب”سے “اہل مکہ اوراہل خیبر” کے نرغے میں تھا-یہ دونوں “مسلمانوں” کے خلاف ایک ہو چکے تھے-بیک وقت دونوں سے مڈ بھیڑ جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف تھا-کسی ایک کی سرکوبی کے لئے دوسرے فریق سے “صلح” کرنا ناگزیر تھا-“اہل خیبر کی بنسبت” اہل مکہ”میں معاہدہ کی پاسداری زیادہ تھی-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے” کفار مکہ” کو ترجیح دیتے ہوئے ” حدیبیہ” کے مقام پر انکی وہ شرائط بھی قبول فرمائیں جو بظاہر مسلمانوں کے موافق نہ تھیں-“نبیء کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی “خارجہ پالیسی” کا یہ وہ روشن باب ہے جسے”چشم فلک” نے”فتح مبین میں بدلتے دیکھا-” صلحء حدیبیہ”کے شرکاء کی تعداد محض1500تھی٫ جو 18 یا 19 سال کی محنت کا ثمر تھے-اس صلح کی برکات دیکھیں کہ اس کے فوراً بعد”خیبر فتح ہوا اور صرف دو ہی سال بعد”فتح مکہ کے موقع پر”10000″صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے ساتھ تھے-( سبحان اللّٰہ)

“فتحء مکہ” کے بعد لوگ “جوق در جوق”اسلام میں داخل ہوئے-“فتحء مکہ” کے”5″سال بعد”سن10ھ” میں جب” میرے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کا وصال ہوا تو روئے زمین پر اس وقت “140000”صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ” موجود تھے-

“رحمتہ اللعالمین صل اللہ علیہ وسلم” کے اس کامیاب “طرزِ عمل” کے پس پردہ یہ پیغام موجود ہے کہ 1-“بیک وقت کئی محاذوں سے اجتناب کیا جائے-2-“اس دشمن کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے جس سے”اندیشہء نقصان” کم اور”امید نفع” زیادہ ہو-

“دشمن کی جاسوسی و معاشی استحصال”

“داخلی استحکام”سے فارغ ہوکر”حفظ ماتقدم” کے طور پر”رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے کفار مکہ” کی ریشہ دوانیوں سے بچنے کی تدبیر یوں فرمائ کہ” مدینہ منورہ” کے “جنوب مغربی ساحل” پر واقع”قبائل بنو ضمرہ٫ جہینہ٫بنو غفار٫مزنیہ٫ اور اشجح”وغیرہ جو قریش کے تجارتی قافلوں کی گزرگاہ تھیں-ان سے”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے “سیاسی معاہدات” شروع کر دیئے- تاکہ قریش کا “معاشی استحصال” ہو اور انکی نقل و حرکت سے باخبر رہا جا سکے- “میرے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کے اس سیاسی عمل نے دنیا کو یہ سبق دیا کہ”کامیاب خارجہ پالیسی”داخلی استحکام” کے مرہون منت ہوتی ہے-

“عام معافی نامہ”

“فتحء مکہ” کے موقع پر جب “مشرکینِ مکہ” اپنی زیادتیوں کی وجہ سے خوف زدہ تھے کہ اب نہ جانے ہمارے ساتھ کیا سلوک ہو٫ایسے میں”میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے تاریخ ساز الفاظ” لا تثریب علیکم الیوم”(آج تم پر کوئ الزام نہیں)٫ سیاسی فراست” کا ایسا مظہر ہے کہ جس کی بدولت لوگ”یدخلون فی دین اللہ افواجا”(لوگ “جوق در جوق”اللّٰہ”کے دین میں داخل ہونے لگے) اور یہ اسی کا ثمرہ ہے کہ ” مکہ مکرمہ”تا دم تحریر” مسلمانوں” کے” زیرِ تسلط” ہے اور ان شاءاللہ تا قیامت رہے گا- آمین-

“سفارتی مہم کا آغاز”

“خیبر اور مکہ مکرمہ” کے زیر ہوتے ہی”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے”مملکت اسلامیہ”کی حدود بڑھانے اور اس “آفاقی دین “کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے” سفارتی مہم” کا آغاز کیا- “سلاطین”کے نام خطوط ارسال کئے- جس سے اسلامی سلطنت کا دائرہ کار وسیع ہوتا چلا گیا-

“عوام سے رابطے”

“حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے”اللّٰہ تعالٰی” کے حکم سے مختلف قبائل سے رشتہ داری قائم فرمائ- کامیاب حکمران کا اپنی رعایا سے رابطے میں رہنا ضروری ہے اور رشتے داری سے زیادہ رابطے کی کوئ اور مؤثر صورت نہیں ہو سکتی-

“حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی داخلی اور خارجی سیاست کے زرین اصول”

” دنیا عالم اسباب ہے- یہاں” انبیاء کرام علیہم السلام” کو اپنے مقدس مشن میں”کن فیکونی” کامیابیاں نہیں ملتیں بلکہ “انھیں” بھی اسباب اختیار کرنے پڑتے ہیں- “میرے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے بھی سیاسی زندگی میں وہ کون سے اسباب اختیار کئے جن کی بدولت کامیابی”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے قدم چومتی رہی؟ان میں سے چند ایک یہ ہیں-

1-“دشمنوں” کے دل موہ لینا”

“سورہ التوبہ” آیت نمبر 60″ میں”انفاق فی سبیل اللہ”میں مال کے خرچ کی مدت”والمولفتہ قلوبھم” یعنی کسی” غیر مسلم” علاقے یا ملک کے باشندوں پر” مسلم حکمران” کا ان کی مصیبت میں اس لئے مال خرچ کرنا کہ وہ “اسلام” کی طرف راغب ہو جائیں-

“فتح مکہ” سے قبل” قحط سالی” کے زمانے میں”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے “500”درہم کی خطیر رقم ” مکہ معظمہ” کے غریب اور نادار لوگوں میں تقسیم فرما کر”اہل مکہ” کے دل جیت لئے-

2-“عہد و پیمان کی پاسداری”

“صلح حدیبیہ” کے عہدنامے میں ایک” شق” یہ تھی کہ”اگر مکہ “کا کوئ باشندہ” مسلمان” ہو کر “مدینہ” آئے تو اسے”اہل مکہ” کے سپرد کر دیا جائے-بظاہر اس شرط کی پاسداری محال تھی- اس کے باوجود” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اس” شق” پر عمل کرتے ہوئے”حضرت ابو جندل رضی اللّٰہ عنہ” کو” صبر” کی تلقین فرما کر کفار کے حوالے کر دیا-

3-“اقلیتوں کی خود مختاری”

“یہودی”زانی اور زانیہ” کا مقدمہ جب” اسلامی عدالت” میں پیش ہوا تو “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نےیہود کی “مذہبی خودمختاری” کا لحاظ رکھتے ہوئے”توریت” کے مطابق ان پر سزا نافذ کی-

4-“متفقہ بات کی دعوت دینا”

“سیاسی ہم آہنگی اور بین الاقوامی” معاملات کی خوشگواری کے لئے”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اپنے اور دوسری اقوام” کے”مشترکہ” امور” کو مد نظر رکھتے ہوئے” دعوت دین” کا آغاز کیا-

“شجاعت و بہادری”

“سیاسی کامیابیوں” کے لئے “موقع شناسی” بہت ضروری ہے-“رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے بھی” موقع شناسی” کے پییش نظر”سیاسی معاہدات “میں جہاں “شفقت و نرمی اور حسن سلوک” کا برتاؤ کیا٫ وہاں بوقتِ ضرورت”سختی و بہادری” کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا رعب بھی قائم رکھا-

“غزوہء خندق” کے بعد “غزوہء خیبر’ میں یہود کی ریشہ دوانیوں کی بنا پر ان کے ساتھ “سختی” سے پیش آنا اور” منافقین کی مسجد ضرار” کو نیست و نابود کروانا اس کا واضح ثبوت ہے-

“خاتم النبیین”حضرت محمد مصطفی صلَّی اللّٰہ علیہ وسلم” کی “سیاست کے سنہری اصول” رہتی دنیا تک کی انسانیت کے لئے” مشعلِ راہ” ہیں- انکی روشنی میں ہر دور کے مفکرین اپنی راہیں متعین کر سکتے ہیں-

(ختم شد 18واں سبق)

حوالہ: سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کورس-

مرسلہ:خولہ بنت سلیمان-

“الہی گر قبول افتد زہے عزو شرف آمین”

اپنا تبصرہ بھیجیں