مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ کے عزیزوں کا جوش انتقام

مگر یہ بات سن کر” بنو عقیل” کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے”واللہ”ہم مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ” کا قصاص لےگیں٫یا انہی کی طرح اپنی جان دے دیں گے-
“حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” بھی سمجھ تو چکے تھے کہ “کوفہ “میں ان کے لئے کوئ گنجائش نہیں ہے٫ لیکن”بنوعقیل”کے اس اصرار اور”مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ” کے تازہ صدمہ سے متاثر ہو کر فرمایا کہ”اب زندگی میں کوئ خیر نہیں”-
ساتھیوں میں سے بعض نے کہا کہ”آپ مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ” نہیں ہیں” آپ رضی اللّٰہ عنہ”کی شان ہی کچھ اور ہے٫ہمیں امید ہے کہ”جب اہل کوفہ” “آپ رضی اللّٰہ عنہ” کو دیکھیں گے تو”آپ رضی اللّٰہ عنہ” کے ساتھ ہو جائیں گے-یہ سن کر “آپ رضی اللّٰہ عنہ” نے آگے کا سفر طے کیا اور” مقام زیالہ”پہنچ کر پڑاؤ ڈالا- راستے میں جس مقام پر “حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کا گزر ہوتا٫ہر مقام سے کچھ لوگ “ان” کے ساتھ ہو جاتے تھے-
“مقام زیالہ” میں یہ خبر ملی کہ”آپ رضی اللّٰہ عنہ” کے رضاعی بھائی”عبداللہ بن لقیط” جن کو راستہ سے” مسلم بن عقیل رضی اللّٰہ عنہ” کی طرف بھیجا تھا وہ بھی قتل کر دیئے گئے- یہ خبر ملنے کے بعد ” حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” نے اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے فرمایا کہ “اہل کوفہ” نے ہم کو دھوکا دیا ہےاور ہمارے”متبعین” ہم سے پھر گئے ہیں٫اس لئے جس کو واپس جانا ہو وہ چلا جائے٫میں کسی کی زمہ داری اپنے سر لینا نہیں چاہتا-
اس اعلان کو سنتے ہی راستے سے ساتھ ہونے والے”بدوی” سب واپس ہو لئے اور اب” حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” کے ساتھ صرف وہی لوگ رہ گئے جو” مکہ معظمہ” سے “آپ رضی اللّٰہ عنہ” کے ساتھ آئے تھے-
یہاں سے روانہ ہوکر “آپ رضی اللّٰہ عنہ””مقام عقبہ” پر پہنچے تو ایک عرب ملے٫انہوں نے کہا” کہ آپ” یہیں سے لوٹ جائیں٫ آپ رضی اللّٰہ عنہ” نیزوں٫ بھالوں اور تلواروں کی طرف جا رہے ہیں-جن لوگوں نے”اپ رضی اللّٰہ عنہ” کو بلایا ہے اگر وہ خود اپنے دشمنوں سے نمٹتے اور ان کو اپنے شہر سے نکال کر”آپ رضی اللّٰہ عنہ” کو بلاتے تو وہاں جانا صحیح تھا٫ لیکن اس حال میں”آپ رضی اللّٰہ عنہ”کا جانا کسی طرح مناسب نہیں-
“حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ” نے فرمایا کہ”تم جو کہ رہے ہو مجھ پر بھی پوشیدہ نہیں لیکن “تقدیر الہٰی” پر کوئ غالب نہیں آسکتا-
(جاری ہے،)
حوالہ: شہید کربلا-
مرسلہ: خولہ بنت سلیمان-
“الہی گر قبول افتد زہے عزو شرف” 

اپنا تبصرہ بھیجیں