نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم بحیثیت شوہر

“سولھواں سبق”

“نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” بحیثیت شوہر”

دنیا میں سب سے پہلے وجودمیں آنے والا رشتہ “خاوند اور بیوی” کا ہے- یہ ایسا عظیم الشان رشتہ ہے کہ جس سے خاندان تشکیل پاتا ہےاور نئے رشتے وجود میں آتے ہیں-

“دین اسلام” میں اس رشتے کی بڑی اہمیت ہے- اس رشتے کو زندگی بھر نبھانے کی کوشش”اسلام” میں عین مقصود ہے- “اللّٰہ تعالٰی”فرماتے ہیں “عاشروھن بالمعروف”° “ان عورتوں کے ساتھ اچھائ کے ساتھ(برتاؤ) گزران کیا کرو”-

“سرکارِ دوعالم حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے بیویوں کے حقوق ادا کرنے اور انکے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی بڑی دلنواز ہدایات دی ہیں- اس تناظر میں اگر “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے” ارشادات مبارک”کو “سرمہء بصیرت”بنا لیا جائے تو”ازدواجی زندگی” ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رہ سکتی ہے-“میرے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”فرماتے ہیں”مومن مرد ( شوہر) کو چاہئے کہ مومن عورت ( بیوی)سے اپنے دل میں کوئ بغض اور عداوت نہ رکھے-اگر اسکی کوئ خصلت ناگوار ہوگی بھی تو کوئ دوسری عادت باعثِ فرحت و انبساط ہوگی-

“دین اسلام” سے پہلے “عورت”عرصہء دراز سے مظلوم چلی آ رہی تھی- لوگ عیش وعشرت کی غرض سے اسکی خریدو فروخت کرتے-اس کے ساتھ حیوانوں سے بھی بدتر سلوک کرتے-اہل عرب عورت کے وجود کو باعثِ شرمندگی سمجھتے تھے٫ اور لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے-“نبیء اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے نہ صرف یہ کہ”صنفِ نازک” کے ساتھ بہترین سلوک کی تاکید کی بلکہ خود بھی اس پر عمل کر کے دکھایا-“امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا”سے مروی ہے کہ”رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے فرمایا” تم میں سب سے بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں( ماں٫ بہن ٫بیوی”بیٹی) کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں-اور تم سب سے زیادہ میں اپنی عورتوں کے ساتھ بہترین برتاؤ کرنے والا ہوں ( ترمذی: کتاب المناقب)

“ذیل میں اختصار کے ساتھ”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کا”ازواج مطہرات” رضوان اللہ علیہھن” کے ساتھ برتاؤ نذر قارئین ہے-

“اماں خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا”حالانکہ عمر میں “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” سے 15 سال بڑی تھیں اور بیوہ تھیں٫ لیکن صرف عمروں کا ہی فرق تھا- مزاج میں بے انتہا مناسبت تھی-“اماں خدیجہ رضی اللّٰہُ عنہا” کو”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” سے بے انتہا محبت تھی-بے انتہا مالدار ہونے کے باوجود”اپنے”عظیم شوہر”کے سارے کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی تھیں-“اللّٰہ تعالٰی”نے تمام اولادیں بھی”انھیں سے دیں سوائے” ابراہیم” کے٫ جو” حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللّٰہُ عنہا” کے بطن سے تھے-

“رفیقہء حیات “کی سہیلیوں سے حسن سلوک”

“اماں خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا” کے وصال کے بعد جب حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم” بکری ذبح کرتے تو اس کا گوشت “اماں خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا”کی سہیلیوں کو بھجواتے”(سنن ترمذی)

“شریک حیات کے مزاج کو سمجھنا”

ایک مرتبہ” حضورِ اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” سے فرمایا”جب تم مجھ سے راضی ہو اور جب تم مجھ سے ناراض ہو٫دونوں حالتوں کا علم مجھے ہوجاتا ہے”-امی عائشہ رضی اللّٰہ عنہا” نے پوچھا کہ”یا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کس طرح علم ہو جاتا ہے”؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے فرمایا “جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو تو”لا ورب محمد” (محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی قسم”) کے الفاظ کے ساتھ قسم کھاتی ہو٫اور جب ناراض ہوتی ہو تو”لا ورب ابراہیم”(ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم) کے الفاظ سے قسم کھاتی ہو-’’(سبحان اللّٰہ)

اس وقت تم میرا نام نہیں لیتیں-امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا ” یا رسول اللّٰہ! میں”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کا صرف نام چھوڑتی ہوں٫نام کے علاؤہ کچھ نہیں چھوڑتی-(صحیح بخاری کتاب الآداب)

“بیوی کو اپنے ہاتھ سے لقمہ کھلانے کی فضیلت”

“آپ صل اللہ علیہ وسلم” نے فرمایا”اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب تم کوئ چیز “اللہ تعالیٰ” کے لئے خرچ کرتے ہو تو وہ خیرات ہے٫ یہاں تک کہ وہ لقمہ بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو-(صحیح بخاری 3/4)

“خاموش اظہار محبت”

“حضرت امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہ” سے روایت ہے کہ” رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” مجھے برتن عنایت فرماتے میں اس سے پانی پیتی٫ پھر وہ برتن میں”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو دیتی” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” تلاش کرکے اسی جگہ منہ لگاتے کہ جس جگہ پر میں نے منہ لگایا تھا-(سنن نسائ:1/190)

“گود میں سر رکھ کر “قرآن پاک” کی تلاوت”

“امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” فرماتی ہیں کہ “نبیء مکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” میری گود میں سر رکھ کر”قرآن مجید” کی تلاوت فرماتے تھے-(صحیح بخاری:1/67)

“محبت میں کسی دوسرے نام سے پکارنا”

“سرور کونین صلی اللّٰہ علیہ وسلم”امی عائشہ رضی اللّٰہُ عنہا” کو پیار سے”حمیرا ” کہ کر پکارتے تھے”لا تفعلی یا حمیرا”

(السنن الکبری للبیہقی)

“امی عائشہ رضی اللّٰہ عنہا” فرماتی ہیں کہ “آپ صلی اللہ علیہ وسلم” نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا- نہ کسی بیوی کو نہ اپنے کسی خادم خادمہ کو- ( سنن ابو داؤد:4/250)

“رفیقہء حیات کے آنسو پوچھنا”

کسی سفر میں”ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللّٰہ عنہا”پیچھے رہ گئیں٫”میرے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” ادھر سے گزرے تو دیکھا کہ وہ زاروقطار رو رہی ہیں- میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اپنے” دست مبارک” سے ان کے آنسو پونچھے اور انکو تسلی دلاسے دیئے٫ لیکن وہ بے اختیار روتی جاتی تھیں-

(سنن الکبری للنسائ: 261/8)

“زوجہ کے ساتھ سیر و تفریح”

“امی عائشہ رضی اللّٰہ عنہا” سے مروی ہے کہ میں ایک سفر میں “حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کے پاس( ” نکاح”و رخصتی) کے بعد بھی ہاتھوں سے بنی ہوئ “گڑیوں”کے ساتھ کھیلا کرتی تھی-میرے ساتھ کھیلنے والی سہیلیاں تھیں جو کھیلنے کے لئے آ جایا کرتی تھیں-جب “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” گھر تشریف لاتے تو وہ “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کے احترام میں کھیل چھوڑ کر چھپ جاتی تھیں٫ تو “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” ان کو میرے پاس بھیج دیتے-چنانچہ وہ پھر میرے ساتھ آ کر کھیلنے لگتیں-

” ہر کام کے لئے گھر والوں کو تکلیف دینے سے اجتناب”

“امی عائشہ رضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں کہ” نبیء کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم”گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے” اپنے کپڑوں میں خود پیوند لگا لیتے٫ نعلینِ مبارک خود گانٹھ لیتے”دودھ دوہ لیتے- اور گھر کے وہ سارے کام کر لیتے جو عموماً گھر وں میں کئے جاتے ہیں- ( مسند احمد 436/ 289)

“گھر والوں کی تیمارداری”

“امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا”فرماتی ہیں کہ” گھر والوں میں سے جب کوئی بیمار ہو جاتا تو” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” اس کی تیمارداری کرتے-” معوذتین پڑھ کر اپنے ہاتھوں سے اس پر دم کرتے-(صحیح مسلم)

“بیویوں میں برابری”

“امی عائشہ رضی اللّٰہُ عنہا” فرماتی ہیں کہ “رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”اپنی ازواج میں برابری کا سلوک کرتے اور ان کے درمیان حقوق کی تقسیم میں انصاف فرماتے تھے-اور باوجود کامل اور مثالی شوہر ہونے کے “اللّٰہ تعالٰی” کے حضور عرض کرتے کہ” اے اللہ! یہ میری تقسیم ان چیزوں میں ہے جن پر میرا قابو ہے٫پس تو مجھے”اس” چیز پر ملامت نہ کر جو جو خالص تیرے قبضے میں ہے( ❤️ دل)اور میرے قبضے میں نہیں-

“اہل خانہ کی رعایت میں منہ کی نظافت”

“آپ صل اللہ علیہ وسلم” جب گھر میں داخل ہوتے تو مسواک کرکے داخل ہوتے-(صحیح مسلم)

“سیر وتفریح”

“امی عائشہ رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ” میں ایک غزوہ سے واپسی کے سفر میں”حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم” کے ساتھ تھی-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا”آؤ عائشہ دوڑ لگائیں-میں اس وقت دبلی پتلی تھی لہذا میں جیت گئ-

کچھ عرصے بعد میرا جسم بھاری ہوگیا-اسی طرح ایک سفر سے واپسی پر پھر مقابلہ ہوا-تو “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” جیت گئے- اس وقت “رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے فرمایا”عائشہ یہ تمھاری اس جیت کا جواب ہے-(سنن کبریٰ)

“شریک حیات کی دین کے حوالے سے فکر”

“حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ”سے روایت ہے کہ “رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اس شخص کے لئے رحمت کی دعا کی ہے جو رات کو اٹھا٫تہجد ادا کی اور اپنی بیوی کو جگایا٫اور اگر اس نے اٹھنے سے انکار کیا تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے- اسی طرح بیوی کے لئے بھی احمت ہے جو رات کو اٹھی٫تہجد ادا کی اور اپنے شوہر کو جگایا اور اگر اس نے انکار کیا تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے-( سنن ابو داؤد)

“شوہروں کے حقوق”

“رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کی حیات طیبہ جس طرح مردوں کے لئے مشعلِ راہ ہیں٫اسی طرح خواتین کے لئے بھی راہنما ہیں- اس لئے یہ ہدایات جہاں مردوں کے لئے ہیں وہاں عورتوں کے لئے بھی ہیں-

اوپر ذکر کردہ”احادیث” کی رو سے”خواتین” کو بھی یہی حکم ہے کہ وہ “شوہروں” کے ساتھ “تہذیب و اخلاق” سے پیش آئیں- ان کے ساتھ “خوش مزاجی” کا معاملہ رکھیں-“ان کے مزاج کا خیال رکھیں- پہلے “مردوں’ کے مظالم کے قصے سننے میں آتے تھے لیکن آج “شوہر” بھی “بیویوں “کے مظالم کا شکار نظر آتے ہیں-اس لئے “اعتدال “کا راستہ یہ ہے کہ “بیوی اور شوہر” دونوں اپنے “حقوق و فرائض” کو “قرآن وسنت” کی روشنی میں ادا کریں-

“احادیث نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی روشنی میں”بیوی کے ذمے شوہر کے حقوق”

1-“ہر جائز بات میں شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا-

2-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے فرمایا” اگر” غیر اللہ” کے آگے سجدہ جائز ہوتا تو میں “بیویوں” کو حکم دیتا کہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں-

3-“بیوی” کو شوہر کی مالی حیثیت سے اور گھر کے ضروری اخراجات سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے-

4-“شوہر” کی اجازت کے بغیر کسی کو بھی گھر میں آنے کی اجازت بیوی کو نہیں دینی چاہیے-

5-” شوہر” کے مال ودولت کی حفاظت بھی بیوی کی ذمہ داری ہے- بیوی کے لئے شرعاً یہ بھی جائز نہیں کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر کوئی چیز کسی کو دے- اگر دی تو اس کا ثواب شوہر کو ملے گا٫جبکہ بیوی کو گناہ ہوگا-

6-” شوہر کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا شوہر کا حق ہے-

7-“شوہر کا بیوی پر ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ نامحرم مردوں سے اپنی آواز تک کا پردہ کرے-

بغیر مجبوری اور ضرورت کے گھر سے باہر نہ نکلے-

اگر مجبوری ہو تو مکمل پردے کے ساتھ گھر سے نکلے اور ضرورت سے زیادہ نامحرموں سے بات بھی نہ کرے-

8-“شوہر کو”حرام کمائی سے روکنا بھی اس کا حق ہے-عورتیں”مردوں کو یہ کہ کر”کام کاج” کے لئے روانہ کریں کہ” حرام کمائی” سے بالکل دور رہنا- ہم بھوک اور تنگی برداشت کر سکتے ہیں لیکن “جہنم”کی آگ برداشت نہیں کر سکتے-

9-“صاف ستھرا رہنا اور زیب وزینت اختیار کرنا بھی شوہر کا حق ہے٫ “واضح رہے” کہ زیب وزینت” کے ناجائز طریقے “شوہر” کے کہنے سے بھی جائز نہیں-

“اللّٰہ تعالٰی” ہمیں کہنے سننے سے زیادہ ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے “آمین ثم آمین” یارب العالمین”-

( “ختم شد”سولہواں سبق)

حوالہ: سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کورس-

مرسلہ: خولہ بنت سلیمان-

“الہی گر قبول افتد زہے عزو شرف آمین”

اپنا تبصرہ بھیجیں