ابوقحافہ اسلام لائے

“جنگ موتہ” سنہ8ھ میں ہوئی اس جنگ میں 300000 کفار کے مقابلے میں 3000مسلمانوں کا مقابلہ رائی میں دانے کے برابر تھا-” نبیء ملاحم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے زید بن حارثہ٫ جعفر طیار٫ اور عبداللہ بن رواحہ رضوان اللہ علیہم اجمعین” کی شہادت کی پہلے ہی پیشنگوئی کردی تھی-اسکے بعد سبکی نظریں “حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ”پر پڑی اور سب نے انھیں امیر بنانے پر اتفاق کر لیا- یہ جنگ 7دن جاری رہی- امام بخاری رحمۃ اللہ نے “حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ” سے روایت کی ہے کہ” جنگ موتہ” کے موقع پر ان کے ہاتھوں سے 9تلواریں ٹونٹی ہیں-” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا”حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ” اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں”-اسی دن سے “حضرت خالدبن ولید رضی اللّٰہ عنہ” کو”سیف اللہ”کہا جانےلگا-

اس جنگ میں مسلمانوں کا صحیح سلامت واپس لوٹ آنا ایک بہت بڑی کامیابی تھی-

اس جنگ کے بعد”سنہ 8ھ” میں ” فتح مکہ”ہوا- مدینہ منورہ میں”آپ صلی اللہ علیہ وسلم” نے اپنا قائم مقام “حضرت کلثوم بن حصن انصاری رضی اللّٰہ عنہ” کو بنایا- اور 10 رمضان کو مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے- اس غزوے میں “حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے ساتھ 10000صحابہ”تھے-( یہ تعداد انجیل میں بھی آئ ہے)

“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی اجازت سے اس پورے لشکر نے آگ جلائ جنکی تعدادراستے میں کچھ قبائل کے شامل ہوجانے کی وجہ سے “12000”ہوگئ تھی اسلئے آگ کے یہ الاؤ دور دور تک روشن ہو گئے جس کی وجہ سے کفار کے دلوں میں ایک دہشت بیٹھ گئ-ابو سفیان کے منہ سے نکلا” میں نے آج کی رات جیسی آگ کبھی نہی دیکھی اور نہ اتنا بڑا لشکر کبھی دیکھا….یہ تو اتنی آگ ہے جتنی “عرفہ” کے دن حاجی جلاتے ہیں-” اسی دوران “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے چچا” حضرت عباس رضی اللّٰہ عنہ” جو اب تک مکہ ہی میں تھے اپنے اہل و عیال کے ساتھ ” عازمِ ہجرت٫ مدینہ منورہ کی طرف ہوئے-اس موقع پر “اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے فرمایا” اے چچا آپ کی یہ ہجرت اسی طرح آخری ہجرت ہے جس طرح ” میری نبوت “آخری نبوت” ہے-

“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کی عظمت اطاعت اور صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” کے دلوں میں “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی محبت اور عقیدت دیکھ کر” ابو سفیان” بول اٹھے” میں نے زندگی میں ان جیسا بادشاہ نہیں دیکھا٫نہ کسری٫نہ قیصراور نہ بنی اظفر کا بادشاہ”یہ سن کر ” حضرت عباس رضی اللّٰہ عنہ” نے کہا” یہ بادشاہت نہیں نبوت ہے-یہ سب دیکھ کر ابو سفیان بھی مسلمان ہوگئے-

“رحمت اللعالمین صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے ایسے میں “عام معافی” کا اعلان کر دیاکہ” جو ہتھیار ڈال دے گا اسے امان ہے”جواپنے گھر کا دروازہ بند کر لیا اسےبھی امان ہے” جو” مسجد حرام” میں داخل ہو جائے گا اسے بھی امان ہے”جو شخص” ابو سفیان” کے گھر اور ” حکیم بن حزام کے گھر پناہ لیگا اسے بھی امان ہے”-

یہ سنتے ہی لوگ دوڑ پڑے اور جسے پناہ کی جہاں جگہ ملی وہاں جا گھسا- اس طرح “مکہ مکرمہ” جنگ کے بغیر فتح ہو گیا-

” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” جب “مکہ معظمہ” میں ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے تو اس وقت وہ اپنی” اونٹنی قصواء “پر سوار تھے-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے پیچھے” حضرت اسامہ بن زید رضی اللّٰہ عنہ” بیٹھے تھے-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے یمنی چادر کا ایک پلہ سر پر لپیٹ رکھا تھا اور عاجزی اور انکساری سے سر کجاوے پر رکھا ہوا تھا اور زبان سے فرما رہے تھے”اللھمہ لا عیش الا عیش الاخرہ”

ترجمہ: یا اللہ کوئ عیش نہی٫عیش تو صرف آخرت ہی کا ہے”(سبحان اللّٰہ)

تمام کاموں اور احکامات سے فارغ ہو کر “جب ” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”حرم مکہ کی مسجد میں تشریف فرما ہوئے”تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” جو لمحہ بہ لمحہ ” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے ساتھ تھے اپنے والد” ابو قحافہ” کو لیکر بارگاہ نبوت” میں حاضر ہوئے- “ابو قحافہ” کی بینائی جاتی رہی تھی-

“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے انکے ضعف اور بڑھاپے کو دیکھ کر فرمایا”اے ابو بکر!انہیں کیوں تکلیف دی میں خود انکے پاس چلا جاتا” اس پر ” ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” نے عرض کیا”یا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”! یہ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ خود چل کر “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے پاس آئیں-

پھر ” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” نے اپنے والد کو “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے سامنے بٹھایا- ” نبیء آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اپنا دست مبارک شفقت سے انکے (ابو قحافہ کے) سینے پر پھیرا اور فرمایا” مسلمان ہو کر عزت اور سلامتی کا راستہ اختیار کرو”وہ اسی وقت مشرف بہ اسلام ہو گئے-

” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ انکا سارا گھرانہ مشرف بہ اسلام ہو گیا-(جاری ہے)

حوالہ: سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم قدم بقدم-

مرسلہ:خولہ بنت سلیمان

اپنا تبصرہ بھیجیں