عقد مضاربت کی ایک جائز صورت

فتویٰ نمبر:642

سوال :عمران اور تنویر دونوں آپس میں شریک ہیں اور دونوں نے مل کر ایک پول بنایا ہے جس میں مختلف لوگوں سے سرمایہ اکٹھا کر کے جمع کریں گے اور پھر اس پول کے سرمائے سے پراپرٹی کا کاروبار کیا جائے گا۔ آپس میں طے پایا ہے کہ اس سرمائے سے صرف بحریہ ٹاؤن میں ہی کاروبار کیا جائے گا اور اس مقصد کے لیے بحریہ ٹاؤن میں دس پلاٹ خرید لیے گئے ہیں۔ یہ دونوں شرکا مضارب ہوں گے اور سرمایہ دار ارباب الاموال ہوں گے۔

ان دونوں شرکا نے بطور مضاربت جو رقوم ارباب الامول سے لی ہوں گی ان کے نفع کا تناسب مختلف ہو گا۔ مثلاً: کسی رب المال سے مضارب کے نفع کا تناسب 30 فیصد اور کسی سے 25 فیصد طے کیا جائے گا۔البتہ ان دونوں شرکا (عمران، تنویر) کو بھی اس کی اجازت ہے کہ وہ بھی اس پول میں اپنا سرمایہ لگا سکتے ہیں۔ اس صورت میں یہ دونوں حضرات پول سے ہونے والے اپنے نفع کو اکٹھا کر کے باہم نصف و نصف کے تناسب سے تقسیم کر لیں گے۔

اس سرمائے سے کوئی ذاتی کام نہیں کیا جائے گا۔ اس معاملے میں شریک تمام شرکا کو سرمایہ میں مختلف تناسب سے شامل کیا جائے گا۔ بعض شرکا (یعنی مضاربین) کاروبار میں حصہ لیں گے اور باقی شرکا حصہ نہیں لیں گے۔ اس کاروبار پر آنے والے تمام اخراجات براہ راست مال مضاربت سے ادا کیے جائیں گے۔ جب کہ بالواسطہ اخراجات مضاربین ہی برداشت کریں گے۔ مضاربین میں سے کوئی ان دس پلاٹوں کی فروخت سے قبل الگ نہیں ہو گا۔ (محمد عامر)

جواب :آپ کی ذکر کردہ معلومات اور تنقیحات کی روشنی میں یہ عقد مضاربت ہے۔ جس میں مضاربین کاروبار کا انتظام و انصرام سنبھا لیں گے جب کہ ارباب الاموال کام میں حصہ نہیں لیں گے۔ پھر عمران اور تنویر نے باقی شرکا سے حقیقی نفع کا تناسب طے کیا ہے، مثلاً: 75 فیصد یا 70 فیصد متعلقہ شریک کا اور باقی ان میں سے کسی ایک مضارب کا، پھر یہ دونوں (عمران اور تنویر) اپنا اپنا کمایا ہوا نفع اکٹھا کر کے باہم نصف و نصف تقسیم کر لیں گے۔ نیز مضاربین (عمران اور تنویر) کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ بھی اپنا سرمایہ اس پول میں لگا سکتے ہیں۔ اس صورت میں وہ سرمائے پر طے شدہ تناسب سے الگ سے نفع لیں گے اور بطور مضارب الگ سے۔ البتہ نقصان کی صورت میں وہ بھی اپنے سرمایہ کے تناسب سے ہی برداشت کریں گے۔

٭ مضاربہ کے تمام بلاواسطہ اخراجات (Direct Expenses) مثلاً: پلاٹوں کی خریداری اور ان کے انتقالات پر اٹھنے والے اخراجات وغیرہ مال مضاربہ سے ادا کیے جائیں گے جب کہ اخراجات، مثلاً: دفتر کے بجلی، فون وغیرہ کے اخراجات مضاربین یعنی عمران اور تنویر برداشت کریں گے۔

٭ غیر فعال شرکا کو اگر کام کرنے سے روک دیا گیا ہے تو ان کے نفع کا تناسب ان کے سرمائے کے تناسب کے برابر کم مقرر کیا جا سکتا ہے، اس سے زیادہ مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔ تاہم فعال شرکا اپنے سرمائے کے تناسب سے زیادہ نسبت طے کر سکتے ہیں۔

٭ شرکت کے لیے ضروری ہے کہ نفع کی تعیین پہلے سے ضروری ہو اور یہ تعیین بھی تناسب کی صورت میں ہو، کسی بھی شریک کے لیے کوئی لگی بندھی یا مقررہ رقم، مثلاً: دس ہزار روپے وغیرہ طے نہ ہو بلکہ تناسب طے ہو کہ، مثلاً: ہر فریق نفع میں اتنے فیصد شریک ہو گا۔

٭ تاہم نقصان ہونے کی صورت میں ہر شریک اپنے لگائے ہوئے سرمائے کی حد تک برداشت کرے گا۔ شرکت کے طریقہ کار کو باقاعدہ عقد کے تحت لانے کے لیے متعلقہ فارم ساتھ منسلک ہیں۔ انہیں پُر کر کے آسانی سے عقد طے کیا جا سکتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں