بچوں پر والدین کی ذمہ داری

اسلام میں اولاد کی والدین کے لئے کیا ذمہ داری ہے اور کیا یہ ذمہداری بیٹوں اور بیٹیوں پر برابر ہے یا فرق ہے؟ اور خاص کر بیٹی کی کیا ذمہ داری ہے جو خود نہ کماتی ہو اور اسکا شوہر اس کا خرچہ اٹھاتا ہو؟
2۔اور داماد اور بہو کی طرف بھی کیا اپنے ساس سسر کی برابر ذمہ داری ہے یا کوئی فرق ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب

اولاد کے ذمہ ہے کہ والدین کی اطاعت کرے۔ ان کی راحت رسانی کی فکر کرے، ماں باپ اگر خدمت یا نفقے (خرچے) کے محتاج ہوں تو ان کی خدمت اور خرچہ بیٹوں اور بیٹیوں دونوں پر برابر لازم ہوگا بشرطیکہ وہ صاحب استطاعت ہوں۔ اسی طرح اگر بیٹی کے پاس اپنا کوئی پیسہ ہے تو وہ اس میں سے تو والدین پر خرچ کر سکتی ہے مگر اس کے شوہر پر ان پر خرچ کرنا لازم نہیں۔

2۔داماد اور بہو پر اپنے ساس سسر کی خدمت اگرچہ شرعاً وقضاءً لازم نہیں ہے، لیکن ان کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہےکہ ایک دوسرے کے والدین کو اپنا والدین سمجھ کر اُن کی خدمت کریں، البتہ ان کو اس خدمت پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ۔ اور اس حکم میں بہو اور داماد دونوں یکساں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔”(و) تجب النفقة (علی موسر) ولو صغیرا۔۔۔۔(النفقة لأصوله)۔۔۔(الفقراء)۔۔۔ (بالسوية) بين الابن والبنت۔۔۔ (والمعتبر فيه القرب و الجزئية) فلو له ابن أو بنت بنت وأخ، النفقة على البنت أو ابنتها“
”(قوله: بالسوية بين الابن والبنت) وظاهر الرواية. وهو الصحيح، وبه يفتى. خلاصة، وهو الحق. فتح“۔
الدر المختار مع رد المحتار: (باب النفقة، 621/3، ط: دار الفکر)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”فلاتخرج إلا لحق لها أو علیها أو لزیارة أبویها کل جمعة مرةً أو المحارم کل سنة“۔
(در مختار)
وفي الشامیة: (قوله: فلاتخرج الخ) وکذا فیما لو أرادت حجّ الفرض بمحرم، أو کان أبوها زمنًا مثلًا یحتاج إلی خدمتها ولو کان کافرًا … (قوله: أو لزیارة أبویها) سیأتي في باب النفقات عن الاختیار تقییده بما إذا لم یقدرا علی إتیانها، وفي الفتح: أنه الحق. قال: وإن لم یکونا کذلك ینبغي أن یأذن لها في زیارتهما في الحین بعد الحین علی قدر متعارف”.
(الدر المختار مع الشامیہ 4/ 293 ، کتاب النکاح،  باب المهر، مطلب في منع الزوجة نفسها لقبض)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3۔”قالوا: ‌إن ‌هذه ‌الأعمال واجبة عليها ديانة، وإن كان لا يجبرها القاضي كذا في البحر الرائق۔“
(فتاوی ھندیہ،الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الأول في نفقة الزوجة، 1/544)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
4۔وعن عائشة رضي الله عنها قالت: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌أي ‌الناس ‌أعظم ‌حقا ‌على ‌المرأة قال: زوجها قلت: فأي الناس أعظم حقا على الرجل قال: أمه۔“
(الترغيب و الترهيب، كتاب النكاح وما يتعلق به، ج: 3، ص: 34، ط: سعيد)
ترجمہ:”حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا  سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ عورت پر لوگوں میں سب سے زیاہ حق کس کا ہے ،تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: اس کے شوہر کا ،پھر میں نے پوچھا کہ مرد پر لوگوں میں سب سے زیادہ حق کس کا ہے تو آپ علیہ السلام نے فرمایاکہ اس کی ماں کا“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

5۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”جب تک ساس خسر زندہ رہیں ان کی خدمت کو، ان کی تابع داری کو فرض جانو، اور اسی میں اپنی عزت سمجھو۔

 (بہشتی زیور، حصہ چہارم، نکاح کا بیان)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
1 جمادی الثانی 1445ھ
14 دسمبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں