باقیات الصالحات کے اجر کا بیان

السلام علیکم ورحمة الله وبركاته.
سوال: حضرت کیا آپ باقیات الصالحات کی اور اس کے اجر کی تھوڑی تفصيل بتا سکتے ہیں کیونکہ جماعت میں بیان میں یہ بات سنی کہ یہ وہ نیکییاں ہیں جن کا اجر ہمیشہ رہے گا حتی کہ اگر کسی کو بدلے میں نیکی دینی پڑی تو ان باقیات الصالحات کا اجر باقی رہے گا؟

وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب باسم ملهم الصواب

سوال میں مذکور بات ہماری نظر سے کہیں نہیں گزری ، البتہ حدیث کے اطلاق سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ :قیامت کے دن انسان پہاڑ کے برابر بھی نیکیاں لے کر آجائے ،لیکن اگر اس نے کسی کا حق مارا ہو گا تو اس کی نیکیاں اس سے لے کر دے دی جائیں گی۔ اس میں اس با ت کا ذکر نہیں ملتا کہ وہ باقیات وصالحات اس میں شامل ہوں گی یا نہیں ۔۔ لہذا اس تفصیل میں پڑے بغیر آدمی اچھے اعمال کرے، کسی کا حق نہ دبائے تو اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔
رہی باقیات و صالحات کے متعلق تفصیل تو:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کلمہ سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوّة الا بالله العلى العظيم یہی باقیات الصالحات ہیں۔ میرے نزدیک ان تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن پر سورج کی روشنی پڑتی ہے۔۔ (یعنی سارے جہاں سے زیادہ پیاری مجھے یہ تسبیح و تحمید و تہلیل و تکبیر ہے)

حوالہ جات: 
حدیث مبارکہ سے:
1..عن أبى هريرة ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ” إذا مات الانسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة أشياء : من صدقة جارية ، أو علم ينتفع به ، أو ولد صالح يدعو له ۔
(سنن أبي داود :2880)
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :؛ مرنے کے بعد انسان کے سارے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں صرف تین اعمال باقی رہتے ہیں صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے ،اور اولاد صالح جو اس کے لئے دعا کرتی رہے ۔

2۔”عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «أتدرون ما المفلس؟» قالوا: المفلس فينا من لا درهم له ولا متاع، فقال: «إن المفلس من أمتي يأتي يوم القيامة بصلاة، وصيام، وزكاة، ويأتي قد شتم هذا، وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا، فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يقضى ما عليه أخذ من خطاياهم فطرحت عليه، ثم طرح في النار»”.
(صحيح مسلم :4/ 1997)
ترجمہ:رسول اللہ ﷺ نے صحابہ رضوان اللہ علیہم سے دریافت کیا کہ: ”تم مفلس کس کو سمجھتے ہو؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا کہ مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور دینار نہ ہوں،اور مال واسبا ب نہ ہوں،تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ملفس وہ ہے جو قیامت کے دن آئے اوراس نے نمازیں بھی پڑھی ہوں، اور روزے بھی رکھے ہوں، اور زکات بھی دیتا رہا ہو، مگر اس کے ساتھ اس نے کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا ناحق مال کھایا تھا، ناحق خون بہایا تھا، کسی کو مارا تھا، اب قیامت میں ایک اس کی یہ نیکی لے گیا اور دوسرا دوسری نیکی لے گیا،یہاں تک کہ اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں،لیکن پھر بھی حق دار بچ گئے ، تو پھر باقی حق داروں کے گناہ اس پر لاد دیے جائیں گے، یہاں تک کہ وہ گناہوں میں ڈوب کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا، یہ ہے حقیقی مفلس“۔ لہذا جس کا مال ناحق لیا ہے اس کو واپس کرنا ضروری ہے، اگر وہ انتقال کرجائے تو اس کے ورثاء کو دینا لازم ہے، اسی کی ادائیگی کی اولاً فکر کرنی چاہیے۔ البتہ اگر کسی نے صاحبِ حق کا حق ادا کیے بغیر فی سبیل اللہ زکات دی یا صدقہ کیا تو شرعاً یہ نافذ ہوگا، گو قیامت کے دن وہ ظلم کے بدلے صاحبِ حق کو ادا کرنا پڑے گا۔

3۔عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : “الْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ، لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَاَللَّهُ أَكْبَرُ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إلَّا بِاَللَّهِ”.
(ابن ماجہ: 1332)
ترجمہ:ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ کلمے باقیات صالحات (یعنی باقی رہنے والی نیکیاں) ہیں : ”لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَاَللَّهُ أَكْبَرُ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إلَّا بِاَللَّهِ“۔
**********
کتب فتاوی سے:
4.. صرح علماؤنا في باب الحج عن الغير بأن للإنسان أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها كذا في الهداية، بل في زكاة التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء اهـ هو مذهب أهل السنة والجماعة..
(الدر المختار مع رد المحتار:2/ 243)
5..الاصل فی ھذ الباب ان الانسان لہ ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلوٰۃ اوصوماً اوصدقۃً اوغیرہ عندا اہل السنۃ والجماعۃ لماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ ضحیٰ بکبشین املحین احدھما عن نفسہ وا الا خرعن امتہ من اقر بوحدانیۃ اللہ۔ ۔۔۔۔
( الھدایہ :: 314/1)
**********
اردو تفاسیر سے :
6..گلدستہ تفاسیر میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ: دنیا کی کھیتی تو مال واولاد ہے اور آخرت کی کھیتی باقیات الصالحات ہیں۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ: باقیات صالحات انسان کی نیت اور ارادے ہیں کہ اعمال صالحہ کی قبولیت اس پر موقوف(منحصر) ہے۔۔
● موضح القرآن میں ہے یہ وہ نیکیاں اور اعمال ہیں جن کا ثواب یا اثر آئندہ باقی رہنے والا ہے۔ جیسے یہ مندرجہ ذیل اعمال :
● علم سیکھا جائے جو جاری رہے۔
● کوئی نیک رسم چلائی جائے ۔
● مسجد ،کنواں یا سرائے بنایا جائے۔
● باغ کھیت یا گھر کسی اچھے کام۔ کے لیے وقف کر دیا جائے۔
● اولاد کو تربیت کر کے صالح چھوڑ جائے۔۔
■ حضرت عبد الرحمن رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : کل اعمال صالحہ باقیات صالحات میں داخل ہیں۔
(گلدستہ تفاسیر :380/4)
🔸واللہ سبحانہ اعلم🔸
5 صفر 1444ھ
2 ستمبر، 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں