چند برے اخلاق اور ان کا علاج:پہلی قسط

چند برے اخلاق اور ان کا علاج:پہلی قسط

عَن أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ : إِنَّ اللّٰہَ لَاَیَنْظُرُ إِلٰی اَجْسَامِکُمْ وَلَا إِلٰی صُوَرِکُمْ ، وَلٰکِنْ یَّنْظُرُ إِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَأَعْمَالِکُمْ ۔ ( رواہ مسلم )

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور صورتوں کی طرف نہیں دیکھتے بلکہ اللہ تعالیٰ تمہارے قلوب اور اعمال کی طرف دیکھتے ہیں۔‘‘

مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے اعمال کو قبول نہیں فرماتے جوبظاہر اچھے معلوم ہوں مگر حقیقت میں اخلاص اور توجۂ قلب سے خالی ہوں، مثلاً: کوئی شخص بظاہر عبادت میں مشغول ہے مگر اس کے دل میں غفلت چھائی ہوئی ہے اور اس بات کی طرف توجہ نہیں ہےکہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہے یا کوئی اور کام کر رہا ہے، تو ایسی عبادت مقبول نہیں ہو گی، اگر چہ اس صورت میں بھی فرض ذمہ سے ساقط ہو جائے گا مگر مکمل ثواب سے محروم رہے گا، اس لیے کہ دل جسم کا بادشاہ ہے،جب تک اس کی اصلاح نہیں ہو گی اس وقت تک دوسرے اعمال درست نہیں ہو ں گے۔

لوگ آج کل اس میں بہت بڑی کوتاہی کر تے ہیں۔ ظاہری اعمال تو تھوڑے بہت کرتے ہیں اور ان کا علم بھی کسی حد تک حاصل کرتے ہیں مگر باطنی اصلاح اور قلب کی درستگی کی کچھ بھی فکر نہیں کرتے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ امراضِ باطنیہ،رِیا، کینہ، حسد وغیرہ کا علاج ضروری نہیں، فقط ظاہری اعمال ہی نجات کے لیے کافی ہیں، حالانکہ اصل مقصوداصلاحِ قلب ہے، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے اور اعمالِ ظاہری قلب کے درست ہونے کا ذریعہ ہیں، اورظاہر اور باطن میں کچھ ایسا قدرتی تعلق ہے کہ بغیر ظاہری حالت درست کیے باطنی حالت درست نہیں ہوتی اور جب تک ظاہری اعمال پر دوام (ہمیشگی اور پابندی ) نہ ہو، اصلاحِ باطن دائم نہیں رہتی ،اور جب باطنی حالت درست ہو جاتی ہے تو ظاہری اعمال خوب اچھی طرح ادا ہوتے ہیں۔

خوب سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح اعمالِ ظاہرہ صوم و صلوٰۃ وغیرہ کا ادا کرنا اور ان کے ادا کرنے کا طریقہ جاننا واجب ہے، اسی طرح قلب کو باطنی امراض، رِیا، نمود، کینہ، حسد اور بغض وغیرہ سے صاف رکھنا اور ان مہلک امراض سے قلب کی صفائی کا طریقہ جاننا بھی ضروری ہے۔حدیث میں ہے:

عن النعمان بن بشیرمرفوعاً فی حدیث طویل : (( اَلاَ وَإِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً إِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ کُلُّہ‘ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہ‘ أَلاَ وَہِیَ الْقَلْبُ ))۔ ( متفق علیہ )

رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’سنو! بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جب وہ درست ہوتا ہے تو تمام بدن درست ہوتا ہے اور جب وہ فاسد ہو جاتا ہے تو تمام بدن فاسد اور خراب ہو جاتا ہے اور آگاہ رہو کہ وہ ٹکڑا دل ہے۔‘‘

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اعضا کی درستی اور اطاعت ِ خداوندی بجا لانا دل کے درست ہونے پر موقوف ہے، کیونکہ دل جسم کا بادشاہ ہے اور رعیت کی اصلاح بادشاہ کے نیک ہونے پر موقوف ہوتی ہے، پس اعضا نیک کام اسی وقت کریں گے، جب دل نیک ہو گا، لہٰذا دل کی اصلاح کی کوشش کرنا واجب ہے۔

جب انسان کوکھانے کی شدیدخواہش ہو اور اس حالت میں نماز پڑھنے سے طبیعت پریشان ہو تو شریعت نے ایسی حالت میں یہ حکم دیا ہے کہ ایسی حالت میں نماز پڑھنا مکروہ ہے، پہلے کھانا کھالو پھر نماز پڑھو، بشرطیکہ نماز کا وقت ختم نہ ہو جائے، تو اس میں حکمت یہ ہے کہ عبادت سے مقصود اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری اور بندگی کا اظہار ہے، اس طرح کہ ظاہر و باطن اس کی عبادت میں مشغول ہوں اور غیر اللہ کی طرف حتی الامکان توجہ نہ رہے او رجب بھوک لگی ہو گی تو اگر چہ ظاہر بدن نماز میں مشغول ہو گا ،لیکن دل پریشان ہو گا اور چاہے گا کہ جلدی سے نماز سے فارغ ہوجائیں تاکہ جلد کھانا مل جائے، پس اللہ تعالیٰ کے سامنے جس طرح حاضری چاہیے تھی، اس میں بہت بڑا خلل واقع ہو گا، لہٰذا ایسی حالت میں نماز کو مکروہ کہا گیا ہے،جس سے یہ معلوم ہو ا کہ نظرِ خداوندی کا محل قلب ہے۔ شریعت ِمقدسہ نے اس کی اصلاح کا بہت بڑا انتظام کیا ہے، بزرگانِ دین نے اصلاحِ قلب کے لیے برسو ں مجاہدے اور ریاضتیں کی ہیں۔

حدیث میں ہے:عن ابن عباس مرفوعا قال : (( رکعتان مقتصدتان خیر من قیام لیلۃ والقلب ساہ ))۔رواہ ابن ابی الدنیا فی التفکر ، کذا فی کنز العمال ۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’میانہ روی کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھنا بہتر ہے، رات بھرایسی حالت میں نماز پڑھنے سے کہ دل غافل ہو۔‘‘مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص دو رکعت نماز اس طرح پڑھے کہ اس کے فرائض،و اجبات اور سنن کو حضورِ قلب کے ساتھ ادا کرے، اگر چہ قیام و قراء ت وغیرہ طویل نہ ہو، ایسی دو رکعتیں رات بھر غفلت ِ قلب کے ساتھ نماز پڑھنے سے زیادہ بہتر اور مقبول ہیں۔اس حدیث سے اہتمام ِقلب کی کس قدر تاکید معلوم ہوتی ہے!!! وجہ یہ ہے کہ فی الحقیقت فعل کی کیفیت دیکھی جاتی ہے کہ کیسا کام کیا، مقدار مطلوب نہیں ہے کہ کتنا کام کیا؟کام باقاعدہ اور عمدہ ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں محبوب اور مقبول ہے اگر چہ تھوڑا ہی ہواور اگر بہت زیادہ کام ہو، لیکن بے قاعدہ اور بے ضابطہ اور غفلت سے ہوتو وہ ناپسند ہے۔

زیادہ کھانے کی حرص اور اس کا علاج

بہت سے گناہ پیٹ کے زیادہ پالنے سے ہوتے ہیں، اس میں کئی باتوں کا خیال رکھنا چاہیے، مزیدار کھانے کی پابندی نہ کی جائے ، حرام روزی سے بچاجائے، حد سے زیادہ پیٹ نہ بھرا جائے بلکہ دو چار لقمے کی بھوک رکھ کر کھانا چھوڑ دینا چاہیے ۔ اس سے بہت سارےفائدے ہیں، مثلاً: دل صاف رہتا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر آتی ہے، اور اس سے اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو تی ہے۔دل میں رقّت اور نرمی رہتی ہے، جس سے دعا اور ذکر میں لذت معلوم ہوتی ہے۔نفس میں بڑائی اور سرکشی نہیں پیدا ہوتی۔ نفس کو تھوڑی سی تکلیف پہنچتی ہے اور تکلیف کو دیکھ کر اللہ کاعذاب یاد آتا ہے، اس وجہ سے نفس گناہوں سے بچتا ہے۔گناہ کی رغبت کم ہوتی ہے۔ طبیعت ہلکی رہتی ہے۔ نیند کم آتی ہے، تہجد اور دوسری عبادتوں میں سستی نہیں رہتی۔ بھوکوں اور عاجزوں پر رحم آتا ہے بلکہ ہر ایک کے ساتھ رحم دلی پیدا ہوتی ہے۔

زیادہ بولنے کی حرص اور اس کا علاج:

نفس کو زیادہ بولنے میں بھی مزہ آتا ہے اور اس سے وہ کئی گناہوں میں پھنس جاتا ہے۔ جھوٹ بولنا، کسی کو طعنہ دینا، اپنی بڑائی جتلانا، خواہ مخواہ کسی سے بحث وتکرار کرنا،مالداروں کی خوشامد کرنا، ایسا مزاح کرنا جس سے کسی کا دل دکھے۔ ان سب آفتوں سے بچنا جب ہی ممکن ہے کہ زبان کی حفاظت کی جائے اور اس کی حفاظت کا طریقہ یہ ہے کہ جو بات کہنی ہو تووہ ذہن میں آتے ہی نہ کہہ ڈالے، بلکہ پہلے خوب اچھی طرح سوچ سمجھ لے کہ اس بات میں گناہ ہے یا ثواب، یا یہ کہ نہ گناہ ہے نہ ثواب۔ اگر وہ بات ایسی ہے کہ جس میں گنا ہ ہے تو بالکل اپنی زبان بند رکھو، اگر اندر سے نفس تقاضا کرے تو اس کواس طرح سمجھاؤ کہ اس وقت تھوڑا سا صبر کر لینا آسان ہے، مگر دوزخ کا عذاب بہت سخت ہے اور اگر وہ بات ثواب کی ہے تو کہہ ڈالو اور اگر نہ گناہ ہے نہ ثواب ہے تو بھی مت کہواور اگر بہت ہی دل چاہے تو تھوڑی سی بات کر کے خاموش ہو جاؤ۔ ہر بات اسی طرح سوچ سمجھ کر کرتے رہیں گے تو تھوڑے دنوں میں بری بات کہنے سے خود ہی نفرت ہو جائے گی۔زبان کی حفاظت کی ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ بلا ضرورت کسی سے نہ ملو۔تنہائی میں خود ہی زبان خاموش رہے گی۔

(جاری ہے ۔۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں