چند برے اخلاق اور ان کا علاج:دوسری قسط

چند برے اخلاق اور ان کا علاج:دوسری قسط

غصہ اور اس کا علاج:

غصے میں عقل ٹھکانے نہیں رہتی اور انجام سوچنے کا ہوش نہیں رہتا،اس لیے زبان سے بھی موقع بے موقع بات نکل جاتی ہے اور ہاتھ سے بھی زیادتی ہوجاتی ہے، اس لیے غصے کو قابو میں رکھنا چاہیے اور اس کو روکنے کا طریقہ یہ ہے کہ جس پر غصہ آیا ہے اس کے سامنے سے فوراً ہٹ جائے۔پھر سوچے کہ جس قدر یہ شخص میرا قصوروار ہے اس سے زیادہ میں اللہ تعالیٰ کا قصور وار ہوں اور جیسا میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری خطا معاف کر دے، ایسے ہی مجھے بھی چاہیے کہ میں اس شخص کا قصور معاف کر دوں اور زبان سے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ بار بار پڑھے اور پانی پی لے یا وضو کر لے، اس سے غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا، پھر جب عقل ٹھکانے آ جائے تواس وقت اگر اس قصور پر سزا دینا مناسب معلوم ہو،مثلاً: سزا دینے میں اس قصوروار کی بھلائی ہے، جیسے اپنی اولاد ہے کہ اس کی اصلاح ضروری ہے یا سزا دینے میں دوسرے کی بھلائی ہے جیسے اس شخص نے کسی پر ظلم کیا تھا اور مظلوم کی مدد کرنا اور اس کا بدلہ لینا ضروری ہے تو پہلے خوب سمجھ لے کہ شریعت کے مطابق اس غلطی کی کتنی سزا ہونی چاہیے؟ پھر اسی قدر سزا دے۔ چند روز اس طرح غصہ روکنے سے خود بخود قابو آجائے گا اور تیزی نہیں رہے گی۔ بغض و عداوت بھی اسی غصے سے پیدا ہوجاتی ہے،جب غصہ کی اصلاح ہو جائے گی تو بغض بھی دل سے نکل جائے گا۔

حسد اور اس کا علاج:

کسی کو کھاتا پیتا یا پھلتا پھولتا دیکھ کر دل میں جلنا اور اس شخص کی نعمت کے زوال سے خوش ہونااس کو حسد کہتے ہیں،یہ بہت بری چیز ہے۔ اس میں گناہ بھی ہے، ایسے شخص کی ساری زندگی تلخی میں گزرتی ہے۔ غرض اس کی دنیا اور دین دونوں بے لذت ہوجاتے ہیں، اس لیے اس آفت سے نکلنے کی بہت کوشش کرنی چاہیے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ پہلے یہ سوچے کہ میرے حسد سے میرا ہی نقصان ہے کہ میری نیکیاں برباد ہو رہی ہیں، کیونکہ حدیث میں ہے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا لیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حسد کرنے والا گویا اللہ تعالیٰ پر اعتراض کر رہا ہے کہ فلاں شخص اس نعمت کے لائق نہیں تھا اور اس کو نعمت کیوں دی، گویا وہ اللہ تعالیٰ کا مقابلہ کر رہا ہے، غرض یہ کہ حسد بہت بڑا گناہ ہے اورحاسد کا تکلیف میں رہناظاہرہے کہ وہ ہمیشہ رنج و غم میں رہتا ہے اور جس پر حسد کیا ہے اس کا کوئی نقصان نہیں، کیونکہ حسد سے وہ نعمت ختم نہیں ہوگی، بلکہ اس کو یہ فائدہ ہوگا کہ اس حسد کرنے والے کی نیکیاں اس کے پاس چلی جائیں گی۔ یہ سوچ لینے کے بعد اپنے دل پر جبر کر کے جس شخص پر حسد پیدا ہوا ہے، زبان سے دوسروں کے سامنے اس کی تعریف کرو اوریہ کہو کہ اللہ تعالیٰ کاشکر ہے کہ اس کے پاس ایسی ایسی نعمتیں ہیں، اللہ تعالیٰ اس کو مزید دے اور اگر اس شخص سے ملاقات ہو تواس کا احترام کرو اور اس کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ۔ شروع شروع میں ایسے برتاؤ سے نفس کو بہت تکلیف ہو گی، مگر رفتہ رفتہ آسانی ہوجائے گی اور حسد جاتا رہے گا۔

دنیا کی محبت اور اس کا علاج:

مال کی محبت ایسی بری چیز ہے کہ جب یہ دل میں آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی یاد اور محبت اس میں نہیں سماتی، کیونکہ ایسے شخص کو تو ہر وقت یہی فکر رہے گی کہ مال کس طرح آئے اور کیسے جمع ہو؟ اتنی چیزیں ہو جائیں، ایسا گھربنانا چاہیے،باغ لگانا چاہیے اورجائیداد خریدنی چاہیے۔ جب دن رات دل اسی میں رہے گا تو اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کی فرصت کہاں ملے گی؟

ایک برائی اس میں یہ ہے کہ جب دل میں اس کی محبت جم جاتی ہے تو مر کر اللہ تعالیٰ کے پاس جانا اس کو برا معلوم ہوتا ہے، کیونکہ یہ خیال آتا ہے کہ مرتے ہی یہ سارا مزا چھن جائے گا۔ ایک برائی اس میں یہ ہے کہ جب آدمی دنیا سمیٹنے کے پیچھے پڑ جاتا ہے،تو اس کو حرام حلال کا کچھ خیال نہیں رہتا،اپنے اور دوسرے کے حق میں فرق نہیں رہتا،نہ جھوٹ اور دھوکہ کی پروا ہ ہوتی ہے، بس یہی نیت رہتی ہے کہ کہیں سے آئے اور ہم اس کو سمیٹیں۔

حدیث میں ہے کہ دنیا کی محبت سارے گناہوں کی جڑ ہے۔ جب یہ ایسی بری چیز ہے تو ہر مسلمان کو کوشش کرنی چاہیے کہ اس سے بچے اور اپنے دل سے دنیا کی محبت نکالے۔اس کا کئی علاج ہیں مثلا:

1- موت کو کثرت سے یاد کرے اور ہر وقت سوچے کہ یہ سب کچھ ایک دن چھوڑنا ہے۔ پھر اس میں دل لگانے کا کیا فائدہ؟ بلکہ جس قدر زیادہ دل لگے گا اسی قدر چھوڑتے وقت حسرت ہو گی۔

2- تعلقات زیادہ نہ بڑھائے، ضرورت سے زیادہ سامان اور جائیداد وغیرہ جمع نہ کرے،غرض مال و اسباب مختصر رکھے۔

3- فضول خرچی نہ کرے کیونکہ فضول خرچی کرنے سے آمدنی کی حرص بڑھتی ہے اور حرص سے سب خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔

4-متوسط کھانے کپڑے کی عادت رکھے۔

5-غریبوں کے ساتھ زیادہ بیٹھے۔ مالداروں سے کم ملے، کیونکہ مالداروں سے ملنے سے چیزوں کی ہوس پیدا ہوتی ہے۔

6-جن بزرگوں نے دنیا سے بے رغبتی اختیار کی ہے، ان کے قصے اور حکایتوں کا مطالعہ کیا کرے۔

7-جس چیز سے دل کو زیادہ لگاؤ ہو، اس کو خیرات کر دے یا بیچ دے۔

ان شاء اللہ تعالیٰ ان تدبیروں سے دنیا کی محبت دل سے نکل جائے گی اور دل میں جو دور دور کی امنگیں پیدا ہوتی ہیں کہ یوں جمع کریں،یوں سامان خریدیں،یوں اولاد کے لیے مکان اور جائیداد چھوڑ جائیں،جب دنیا کی محبت جاتی رہے گی تویہ امنگیں خود بخود ختم ہو جائیں گی۔

کنجوسی اور اس کا علاج

بہت سے حق جن کا ادا کرنا فرض اور واجب ہے، جیسے: زکوٰۃ، قربانی، کسی محتاج کی مدد کرنا، اپنے غریب رشتہ داروں کےساتھ حسن سلوک کرنا، کنجوسی میں یہ حق ادا نہیں ہوتے، اس کا گناہ ہوتا ہے، یہ دین کا نقصان ہے اور کنجوس آدمی سب کی نگاہوں میں ذلیل و بے قدر رہتا ہے، یہ دنیا کا نقصان ہے۔

اس سے بچنے کا علاج ایک تو یہ ہے کہ مال اور دنیا کی محبت دل سے نکالے۔ جب اس کی محبت نہ رہے گی تو کنجوسی کسی طرح ہو ہی نہیں سکتی۔دوسرا علاج یہ ہے کہ جو چیز اپنی ضرورت سے زیادہ ہو،طبیعت پر زور ڈال کر وہ کسی کو دے دیا کرے، اگرچہ نفس کو تکلیف ہو مگر ہمت کر کے اس تکلیف کوبرداشت کرلے۔ جب تک کنجوسی کا اثر دل سے بالکل نہ نکل جائے، اسی طرح کرتا رہے۔

(جاری ہے۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں