چند برے اخلاق اور ان کا علاج:تیسری قسط

چند برے اخلاق اور ان کا علاج:تیسری قسط

شہرت پسندی اور اس کا علاج:

جب آدمی کے دل میں شہرت کی خواہش ہوتی ہے تو دوسرے شخص کے نام اور تعریف سے جلتا ہے اور حسد کرتا ہے۔ دوسرے شخص کی برائی اور ذلت سن کر خوش ہوتا ہے،یہ بھی بڑے گناہ کی بات ہے کہ آدمی دوسرے کا برا چاہے اور اس میں یہ برائی بھی ہے کہ کبھی ناجائز طریقوں سے نام پیدا کیا جاتا ہے، مثلاً: شہرت کے لیے شادی وغیرہ میں خوب مال اڑایا، فضول خرچی کی، مال کبھی رشوت سے جمع کیا، کبھی سودی قرض لیا۔ یہ سارے گناہ اسی شہرت کے شوق کی بدولت ہوئے ۔

اور دنیا کا نقصان اس میں یہ ہے کہ ایسے شخص کے حاسد اور دشمن بہت ہوتے ہیں اور ہمیشہ اس کو ذلیل اور بد نام کرنے اور اس کو نقصان اور تکلیف پہنچانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔

اس کا علاج یہ ہے کہ یہ سوچے کہ جن لوگوں کی نگاہ میں ناموری اور تعریف ہو گی نہ وہ رہیں گے اورنہ میں رہوں گا، تھوڑے دنوں کے بعد کوئی پوچھے گا بھی نہیں، تو ایسی بے بنیاد چیز پر خوش ہونا نادانی کی بات ہے۔

غرور وتکبر اور اس کا علاج:

غرور اور تکبر کا معنی یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو علمؔ، دینداؔری، حسبؔ و نسبؔ،مالؔ و جاہؔ اورعقل وغیرہ میں اوروں سے بڑا سمجھے اور دوسروں کو اپنے سے حقیر جانے،یہ بڑا گناہ ہے۔حدیث میں ہے کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابربھی تکبر ہو گا، وہ جنت میں نہیں جائے گا۔دنیا میں بھی لوگ ایسے آدمی سے بہت نفرت کرتے ہیں، اور اس کے دشمن بن جاتے ہیں، اگرچہ ڈر کے مارے ظاہر ی طور پر آؤ بھگت کرتے ہیں۔

ایک برائی یہ بھی ہے کہ ایسا شخص کسی کی نصیحت کو نہیں مانتا، حق بات کو کسی کے کہنے سے قبول نہیں کرتا، بلکہ برا مانتا ہے اور اس نصیحت کرنے والے کو تکلیف پہنچانا چاہتا ہے۔

اس کا علاج یہ ہے کہ اپنی حقیقت میں غور کرے کہ میں مٹی اور ناپاک پانی کی پیدائش ہوں۔ ساری خوبیاں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہیں، اگر وہ چاہے تو ابھی سب لے لے، پھر تکبر کس بات پر کروں؟ اللہ تعالیٰ کی بڑائی کو یاد کرے تو اس وقت اپنی بڑائی پر نگاہ نہیں جائے گی اور جس کو اس نے حقیر سمجھا ہے اس کے سامنے عاجزی سے پیش آئے اور اس کی تعظیم کیا کرے، بڑائی دل سے نکل جائے گی۔ اگرزیادہ ہمت نہ ہو تو اتنی ہی پابندی کرلے کہ جب کوئی چھوٹے درجے کا آدمی ملے تواس کو پہلے خود سلام کر لیا کرے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اس سے بھی دل میں بہت زیادہ عاجزی پیدا ہو گی۔

خود پسندی اور اس کا علاج:

اگر کوئی اپنے آپ کو اچھا سمجھے، اگر چہ دوسروں کو برا اور کم نہ سمجھے تو یہ بھی بری بات ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ یہ خصلت دین کو برباد کرتی ہے اور یہ بات بھی ہے کہ ایسا آدمی اپنی اصلاح کی فکر نہیں کرتا کیونکہ جب وہ اپنے آپ کو اچھا سمجھتا ہے تو اس کو اپنی برائیاں کبھی نظر نہیں آئیں گی۔ اس کا علاج یہ ہے کہ اپنے عیبوں کو سوچا اور دیکھا کرے اور یہ سمجھے کہ میرے اندر جو خوبیاں ہیں،یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، اس میں میرا کوئی کمال نہیں اور یہ سوچ کر اللہ تعالیٰ کا شکر کیا کرے اور دعا کیا کرے کہ ’’اے اللہ! مجھے اس نعمت سے کبھی محروم نہ فرمانا۔‘‘

ایک قابلِ توجہ بات:

باطنی امراض کے جو علاج مذکور ہوئے، ان پر ایک دو مرتبہ عمل کرنے سے باطنی اصلاح نہیں ہوتی اور اندورنی برائیاں ختم نہیں ہوتیں، بلکہ ان تدابیر کو مسلسل اختیار کیا جائے اور ہر وقت اصلاح کی فکر رہے، کیونکہ انسان کا نفس شریر ہے اور ہر وقت برائی کاحکم دیتا ہے، اس کی طرف ہمیشہ دھیان رہے۔

دل کی جتنی برائیاں ہیں اور ہاتھ پاؤں سے جتنے گناہ ہوتے ہیں، ان کے علاج کا ایک آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ جب نفس سے کوئی برائی یا گناہ کا کام ہوجائے تواس کو کچھ سزا دیا کرے ۔ دو سزائیں آسان ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ اپنے ذمہ جرمانے کے طور پر کچھ صدقہ مقرر کر لے کہ جب کوئی بری بات سرزدہو جایا کرے تو غریبوں میں جرمانہ بانٹ دیا کرے، اگر پھرگناہ ہو جائے تو دوبارہ اسی طرح کرے۔ دوسری سزا یہ ہے کہ کبھی کبھار ایک دو وقت کا کھانا نہ کھایا کرے۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ سب برائیاں چھوٹ جائیں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں