درباروں پر جانا جائز ہے یا نہیں

مفتی صاحب درباروں پرجاناجائزہے کہ نہیں قرآن اورحدیث کی روشنی میں واضح کریں؟

الجواب حامداًومصلیاً

      اولیائے کرام کی زیارت کیلئے جانااور اس سے تبرک اور عبرت حاصل کرناجائزہےبشرطیکہ وہاں کسی قسم کی بدعت اورشرکیہ اقوال وافعال صادرنہ ہوں، قبروں کی زیارت کرنامستحب ہے اس سے دنیاکی محبت کم ہوتی ہے اور آخرت یاد آتی ہے۔   

            جیساکہ حدیث شریف میں ہے:

صحيح مسلم – عبد الباقي – (2 / 671)

عن أبي هريرة قال زار النبي صلى الله عليه وسلم قبر أمه فبكى وأبكى من حوله فقال استأذنت ربي في أن أستغفر لها فلم يؤذن لي واستأذنته في أن أزور قبرها فأذن لي فزوروا القبور فإنها تذكر الموت

الدر المختار – (2 / 239)

 ولا بأس بنقله قبل دفنه وبالإعلام بموته وبإرثائه بشعر أو غيره ولكن يكره الإفراط في مدحه لا سيما عند جنازته ……..وبزيارة القبور ولو للنساء لحديث كنت نهيتكم عن زيارة القبور ألا فزوروها                

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (2 / 242)

(قَوْلُهُ وَبِزِيَارَةِ الْقُبُورِ) أَيْ لَا بَأْسَ بِهَا، بَلْ تُنْدَبُ كَمَا فِي الْبَحْرِ عَنْ الْمُجْتَبَى، فَكَانَ يَنْبَغِي التَّصْرِيحُ بِهِ لِلْأَمْرِ بِهَا فِي الْحَدِيثِ الْمَذْكُورِ كَمَا فِي الْإِمْدَادِ، وَتُزَارُ فِي كُلِّ أُسْبُوعٍ كَمَا فِي مُخْتَارَاتِ النَّوَازِلِ. 

تاہم ایسے مزارات اوردربارجہاں ہمہ وقت شرکیہ افعال اور بدعات کی جاتی ہوں توایسے مزارات پرجانے میں احتیاط ہی بہترہے ان اصحابِ قبور کواگرہوں تودور سےہی ایصالِ ثواب کردیاجائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں