ای-نمبرز یا ای-کوڈز کی ضرورت اہمیت

السلام علیکم و رحمة الله و برکاته

معزز اراکین “مشاورت برائے مسائل جدیدہ” کے حکم کی تعمیل میں آپ اکابر حضرات کی خدمت میں بندہ کی طرف سے ای-نمبرز یا ای-کوڈز کے حوالے سے ایک ٹوٹی پھوٹی کاوش پیشِ خدمت ہے۔ الله کریم بندہ کو آپ حضرات کی احسن انداز میں خدمت کی صحیح توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ای-نمبرز یا ای-کوڈز کی ضرورت اہمیت

کھانے پینے یا لگانے والی اشیاء میں جو اجزاء استعمال کیے جاتے ہیں ان کے حصول کے عمومی طور پر چار ذرائع ہوتے ہیں۔ 

۱- معدنیات

۲- نباتات

۳- حیوانات

۴- مصنوعی یا سینتھیٹک (Synthetic)

بعض اجزاء کے حصول کے ذرائع ایک سے زائد بھی ہوتے ہیں۔

یورپ میں جب صارفین کے حقوق کے حوالے سے جب قوانین بنائے گئے تو ایک قانون یہ بھی بنا کہ کسی بھی مصنوع کی تیاری کے دوران جو بھی اجزاء استعمال کیے جائیں انہیں اس مصنوع کی پیکنگ پر لازمی لکھا جائے۔ تاکہ صارف اس کے بارے میں مکمل جان سکے اور ان معلومات پر اعتماد کرتے ہوئے اس مصنوع کو استعمال کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے میں مکمل آزاد ہو۔ 

جب مصنوعات کی افزائش و فراوانی ہوئی اور درآمدات و برآمدات میں اضافے کی وجہ سے بین الاقوامی تجارت کو فروغ ملا تو پھر یہ مشکل پیش آئی کہ مختلف ممالک اور خِطوں میں اجزاء کے مُختلف نام اور ان کےحصول کے متفرق ذرائع کو کس طرح سمجھا جائے تو اس مشکل کا حل یہ نکالا گیا کہ ہر جُز کو، چاہے اس کے حصول کا کوئی بھی ذریعہ ہو، ایک خاص نمبر دے دیا جائے جس سے اس کی پہچان آسان ہو سکے۔ 

لہٰذا اس طرح یوروپین نمبرز (European Numbers) یا ای نمبرز (E-Numbers) کا وجود قائم ہوا۔ 

ان ای-نمبرز میں اجزاء کو ان کے حصول کے ذرائع کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی خصوصیات بشمول رنگ، ذائقہ، خوشبو، محفوظ یا دیرپا رکھنے کی صلاحیت، جراثیم کُش، اینٹی بائیوٹِکس وغیرہ جیسی خصوصیات کے مطابق سینکڑوں کے سلسلہ کی صورت میں تقسیم کیا گیا۔ جیسے رنگنے یا رنگ کی صلاحیت رکھنے والے اجزاء کے لیے ایک سو تا ایک سوننانوے نمبرز کا سلسلہ (100-199) مُختص کیا گیا اسی طرح دیگر اجزاء کے حصول کے ذرائع کے مطابق ای-نمبرز ترتیب دیے گئے جن میں آخری سلسلہ غالباً (1501-1599) ہے۔

چنانچہ مُختلف ذرائع سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ابھی تک تقریباً چار سو بہتر یا اس سے کچھ زائد (472) اجزاء کو ان کی خصوصیات کے لحاظ سے مُختلف نمبرز دیے جاچُکے ہیں۔

اکثر یعنی چار سو 400 سے زائد ای نمبرز کے تحت اجزاء کے ذرائع نباتات و جمادات یا معدنیات اور مصنوعی یا سینتھیٹک ہیں۔

ان مذکورہ بالا نمبرز کے تحت آنے والے اجزاء کے حصول کے ذرائع میں اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ یہ اجزاء انسانی صحت کے لیے مُضر یا نُقصان دہ نہ ہوں۔ 

جبکہ ان تمام ای نمبرز میں غالباً صرف تریسٹھ (63) ای نمبرز مشبوہ ہیں یعنی ایسے ہیں جن کے حصول کے ذرائع جانور بھی ہیں۔

ان میں سے بعض کے سورسز جانور اور نباتات دونوں ہیں۔

جبکہ ان میں سے بعض کے سورسز جانور کے ساتھ ساتھ دیگر دو یا دو سے زائد ذرائع یا سورسز بھی ہیں۔

جبکہ ایک ای-نمبر E-120 کا سورس یا ذریعہ صرف ایک جانور یعنی کوچنیل کیڑا ہے۔

اب جن اجزاء کے حصول کے ذرائع میں جانور ہیں تو ان میں پہلے یہ دیکھا جاتا کے کہ جس جانور سے اس جُز کو یا اجزاء کو حاصل کیا گیا تھا اس جانور کا بذاتِ خود شُمار شریعہ کی روشنی میں حلال جانوروں یا مأکول اللحم جانوروں میں ہے یا حرام کردہ جانوروں میں ہے؟

اگر حلال یا مأکول اللحم جانوروں میں سے ہے تو کیا اس جُز کو اس جانور کے ایسے اعضاء سے تو نہیں لیا گیا جنہیں شریعہ کی روشنی میں جانور سے زندہ ہونے کی حالت میں جُدا کرنے سے منع کیا گیا ہو؟

اگر جانور کو ذبح کیے بغیر اس جُز کا حصول ممکن نہ ہو تو پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس جانور کو شریعہ کے اصولوں کے مطابق ذبح کیا گیا تھا یا نہیں؟

پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس جُز کو قابلِ استعمال بنانے کے لیے اس کے ساتھ کسی مزید ایسے جُز یا اجزاء کا تلوث تو نہیں کیا جاتا جو شریعہ کی روشنی میں ممنوع ہو؟

یہ سب معلومات صرف مکمل طور پر ان اجزاء کے حصول کے لیے ذرائع استعمال کرنے والے صانعین سے ہی مل سکتی ہیں ۔ اور ان معلومات کے حصول میں معاونت صرف اشیاء بنانے والے ایسے صانعین ہی لی سکتے ہیں جو ان اجزاء کو اپنی مصنوعات میں استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ ان اجزاء کے صارفین یا کسٹمر ہوتے ہیں۔ اس لیے اجزاء کے حاصلین یا صانعین کی وہ مجبوری ہوتے ہیں۔ 

کسی لیبارٹری کے ذریعے یہ تو معلوم کیا جاسکتا ہے کہ فلاں جُز کا سورس یا ذریعہ کوئی نباتات معدنیات  حیوانات ہے یا مصنوعی ہے۔ اور اگر حیوانات میں سے ہے تو کون سا حیوان یا جانور ہے۔ لیکن لیبارٹری میں ٹیسٹ کے ذریعہ سے یہ جاننا ابھی تک ناممکن ہے کہ حلال جانور کا ذبیحہ شرعی تھا یا غیر شرعی؟

اس لیے اس سلسلے میں صانعینِ اجزاء پر ہی انحصار کیا جاتا ہے اور ان سے حاصل کی گئی معلومات یا پھر حلال سرٹیفیکیٹس پر اعتماد کرتے ہوئے ان اجزاء کی حِلَّت و حُرمت کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

بندہ نے اپنی طرف سے کوشش تو کی ہے کہ اس مسئلہ کی مناسب انداز میں وضاحت کر سکے پھر بھی کمی کوتاہی کو بندہ کی بشری کمزوری و نالائقی پر محمول فرماتے ہوئے معاف فرما دیجیے گا۔ 

جزاکم الله خیرا و احسن الجزا

مضمون کی طوالت پر بندہ آپ حضرات سے دست بستہ معافی کا طلبگار بھی ہے۔

دُعاؤں کا مُحتاج

اپنا تبصرہ بھیجیں