ایزی پیسہ جائز ہے یا ناجائز؟

سوال ایزی پیسہ جائز ہے یا ناجائز؟تفصیلاً وضاحت فرمائیں، تاکہ میری رہنمائی ہو سکے۔ (اشفاق الیاس)

جوابایزی پیسہ کی سروس حاصل کرنے میں درحقیقت دو معاملے ہوتے ہیں: ایک ’’حوالہ‘‘ (مذکورہ صورت میں ایک جگہ رقم بطور قرض دے کر دوسری جگہ وصول کرنا)کا معاملہ جو تین اشخاص یعنی کسٹمر(محیل)، دکاندار(محتال علیہ) اور رقم وصول کرنے والے شخص(محتال لہ) کی رضا مندی سے منعقد ہوتا ہے۔

اور دی گئی رقم کی شرعی حیثیت قرض کی ہے، کیونکہ وہی رقم بعینہ مطلوبہ شہر میں نہیں پہنچائی جاتی، بلکہ اس کے بجائے دوسری رقم دے جاتی ہے، نیز رقم نہ وصول ہونے کی صورت میں ایزی پیسہ کی سہولت فراہم کرنے والا شخص یا ادارہ ضامن بھی ہے۔

دوسرا معاملہ اجار ہ کا ہے جو رسید کاٹنے، شناختی کارڈ نمبر درج کرنے، میسج لکھنے، کمپنی کو سینڈ کرنے اور اس کے علاوہ دیگر خدمات سرانجام دینے کی عوض حق الخدمت ہے۔ اور یہ دونوں معاملے جائز ہیں اس لیے ایزی پیسہ کروانا بھی جائز ہے۔ 

امدادِ باہمی کا درست طریقہ 

سوال 

ایک آدمی(OGDC) کمپنی میں ملازم ہے اور کمپنی کا اصول ہے کہ دس سال کے بعد اپنے ورکر کو اس کی ضرورت کے بقدر قرض دیتی ہے اور اس قرض کو ڈیڑھ سو قسطوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور ہر ماہ اس کی تنخواہ میں سے کاٹ لیا جاتا ہے۔ اور ساتھ ساتھ کچھ قلیل رقم ’’بطور پالیسی‘‘ کے کاٹ لیتی ہے۔ کمپنی کی ’’پالیسی‘‘یہ ہے کہ جن ورکرز کو قرضہ فراہم کردیتی ہے، ان کی ایک کمیٹی بناتی ہے اور یہ قرض خواہ اس کمیٹی کا ایک رکن ہو جاتا ہے جب قرض لیتا ہے۔ کمیٹی کے ان قرض خواہ اراکین میں سے اگر کوئی فوت ہو جائے تو اس قرض خواہ کی بقیہ اقساط معاف ہو جاتی ہیں اور بقیہ ماندہ رقم اس کمیٹی کے اراکین کی جمع شدہ اضافی قلیل رقم سے کاٹ لی جاتی ہے۔ کیونکہ کمپنی کا کہنا ہے کہ فوت شدہ رکن کے ورثاء بقیہ رقم کی ادائیگی نہیں کرتے۔ اور فرض کیا اگر ایک سال کے عرصے میں کوئی رکن فوت نہ ہو تو کمپنی مذکورہ بالا قلیل رقم کا حجم کم کر دیتی ہے اور بعض اوقات بالکل ختم کر دیتی ہے۔ کمیٹی کے اراکین کاکہنا ہے کہ وہ یہ قلیل رقم صلہ رحمی کے طور پر جمع کراتے ہیں تاکہ فوت شدہ رکن کے لواحقین کی مدد ہو جائے ۔ مثلاً: ایک ورکر تیس لاکھ روپے قرض لے اور ہر ماہ بیس ہزار روپے قسط وار ادا کرے تو کمپنی مزید ایک ہزار روپے قلیل رقم کی مد میں کاٹ لیتی ہے۔ تاکہ پالیسی سے مندرجہ بالا فائدہ حاصل کیا جا سکے۔ 

قرض لینے کی شرائط حسبِ ذیل ہیں: 

1 اس رقم سے صرف پلاٹ اور مکان خرید سکتے ہیں۔ 

2 قرضہ لینے کے لیے دو ضامن جو کہ ادارہ ہذا کے ملازم ہوں، کی ضمانت ضروری ہے۔ 

3 خریدے گئے پلاٹ، مکان کے کاغذات کمپنی میں جمع کروانا ضروری ہے۔ 

4 انشورنس کے لیے قلیلرقم ہر ماہ کی تنخواہ سے کاٹی جائے گی۔ 

اب سوال یہ ہے کہ 

1 کیا یہ اصناف رقم لینا اور دینا جائز ہے یا نہیں؟ 

2 اگر جائز نہیں تو متبادل طریقہ بنایا جائے تاکہ جو لوگ اس میں ملوث ہیں وہ اس گناہ سے بچ جائیں۔ تفصیلی راہ نمائی فرمائیںقرآن وحدیث کی روشنی میں۔ 

(انجینئر محمد داود) 

جواب 

کمپنی کی پالیسی بنیادی طور پر اپنا قرض پورا پورا وصول کرنے کی ایک تدبیر ہے ۔ لواحقین کے ادا نہ کرنے کے رسک سے حفاظت مقصود ہے۔ گویا کچھ حضرات جن کا انتقال ہو جاتا ہے ، ان کا قرضہ دیگر قرض خواہوں سے لازمی وصول کیا جاتا ہے۔ یہ’’امکان ربا‘‘کی وجہ سے صریح حرام ہے۔ درست صورت یہ ہے کہ کمپنی ایک فنڈ بنا لے جو سرمایہ کاری بھی کرتا ہے۔ منافع سے کمپنی کا خسارہ پورا ہوجایا کرے گا بطور پالیسی کے تو نہیں ویسے ہی ممبر ان کو اختیار دیا جائے کہ فنڈ میں امداد کے طور پر کچھ جمع کرانا چاہیں تو کرا سکتے ہیں تو بھی یہ سودی معاملہ نہ رہے گا اور جائز ہو گا۔ ایک صورت یہ بھی جائز ہو سکتی ہے کہ مقروض سے کوئی چیز یا کسی پراپرٹی کے کاغذات وغیرہ بطوررہن اپنے پاس رکھے، تاکہ قرض وصول نہ ہونے کی صورت میں اسے فروخت کر کے اپنے قرض کی وصولی کر سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں