از حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ
قربانی ایک اہم عبادت اور شعائر میں سے ہے زمانہ جاہلیت میں بھی اس کو عبادت سمجھا جاتا تھا مگر لوگ بتوں کے نام پر قربانی کرتے تھے۔ا سی طرح آج تک دوسرے مذاہب میں قربانی مذہبی رسم کے طور پر ادا کی جاتی ہے بتوں کے نام پر یا مسیح کے نام پر قربانی کرتے ہیں ، سورہ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا کہ جس طرح نماز اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی نہیں ہوسکتی قربانی بھی اس کے نام پر ہونی چاہیے فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ کا یہی مفہوم ہے دوسری آیت میں اسی مفہوم کو دوسرے عنھوان سے اس طرح بیان فرمایا ہے ۔ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( تفسیر ابن کثیر )
رسول اللہ ﷺ نے بعد ہجرت دس سال مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا ہر سال برابر قربانی کرتے تھے اور مسلمانوں کو اس کی تاکید فرماتے تھے ۔ ( ترمذی )
جس سے معلوم ہوا کہ قربانی صرف مکہ معظمہ کے لیے مخصوص نہیں ہر شخص ہر شہر میں بعد تحقیق شرائط واجب ہے اسی لیے جمہور اسلام کے نزدیک قربانی واجب ہے ۔ ( شامی )
قربانی کس پر واجب ہوتی ہے ؟
قربانی ہر مسلمان عاقم، بالغ ، مقیم پر واجب ہوتی ہے جس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا مال اس کی حاجات اصلیہ سے زاید موجود ہو یہ مال خواہ سونا چاندی یا اس کے زیورات ہوں یا مال تجارت یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان یا مسکونہ مکان سے زائد کوئی مکان وغیرہ ہو ( شامی )
قربانی کے معاملے میں اس مال پر سال بھر گزرنا بھی شرط نہیں۔ بچہ اور مجنون کی ملک میں اگر اتنا مال ہو تو بھی اس پر یا اس کی طرف سے اس کے ولی پر قربانی واجب نہیں اسی طرح جو شخص شرعی قاعدے کے موافق مسافع ہو اس پر بھی قربانی لازم نہیں۔ ( شامی )
مسئلہ : جس شخص پر قربانی واجب نہ تھی اگر اس نے قربانی کی نیت سے کوئی جانور خرید لیا تو اس کی قربانی واجب ہوگئی ۔ ( شامی )
قربانی کے دن
قربانی کے دن صرف تین دن کے ساتھ مخصوص ہے دوسرے دنوں میں قربانی کی کوئی عبادت نہیں۔ قربانی کے دن ذی الحجہ کی دسویں ، گیارہویں اور بارہویں تاریخیں ہیں اس میں جب چاہے قربانی کرسکتا ہے البتہ پہلے دن کرنا افضل ہے ۔
قربانی کے بدلے صدقہ خیرات
اگر قربانی کے دن گزرگئے ، باواقفیت یا کسی عذر سے قربانی نہیں کرسکا تو قربانی کی قیمت فقراء ومساکین پر صدقہ کرنا واجب ہے لیکن قربانی کے تین دنوں میں جانوروں کی قیمت صدقہ کرنے سے یہ واجب ادا نہ ہوگا ہمیشہ گنہگار رہے گا ۔ کیونکہ قربانی ایک مستقل عبادت ہے جیسے نماز پڑھنے سے روزہ اور روزہ رکھنے سے نماز ادا نہیں ہوتی ۔ زکوٰۃ ادا کرنے سے حج ادا نہیں ہوتا ایسے ہی صدقہ خیرات کرنے سے قربانی ادا نہیں ہوتی۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشادارت اور تعامل صحابہ رضوان اللہ اجمعین اس پر شاہد ہیں ۔
قربانی کا وقت
جن بستیوں یا شہروں میں نماز جمعہ اور عیدین جائز ہے وہاں عید سے پہلے قربانی جائز نہیں۔ اگر کسی نے قربانی کردی تو اس پر دوبارہ قربانی لازم ہے البتہ چھوٹے گاؤں جہاں جہاں جمعہ وعیدین کی نماز نہیں ہوتیں یہ لوگ دسویں تاریخ کی صبح صادق کے بعد قربانی کرسکتے ہیں ایسے ہی اگر کسی عذر کی وجہ سے نماز عید سے پہلے دن نہ ہوسکے تو نماز عید کا وقت گزر جانے کے بعد قربانی درست ہے ۔ ( در مختار )
قربانی کے جانور
بکرا دنبہ، بھیڑیا ایک ہی شخص کی طرف سے قربان کیا جاسکتا ہے گائے ، بیل ، بھینس، اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ایک کافی ہے بشرطیکہ سب کی نیت ثواب کی ہو کسی کی نیت محض گوشت کھانے کی نہ ہو ۔
مسئلہ : بکرا بکری، ایک سال کا پورا ہونا ضروری ہے بھیڑ اور دنبہ اگر اتنا فربہ اور تیار ہو کہ دیکھنے میں سال کا بھر معلوم ہو تو وہ بھی جائز ہے ۔ گائے ، بیل، بھینس دو سال کی، اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے ان عمروں سے کم کے جانور قربانی کے لیے کافی نہیں ۔
مسئلہ : اگر جانور کے سینگ پیدائشی طور پر نہ ہوں یا بیچ سے ٹوٹ گیا ہو تو اس کی قربانی درست ہے ہاں سینگ جڑ سے اکھڑ گیا ہو جس کا اثر دماغ پر ہونا لازم ہے تو اس کی قربانی درست نہیں۔ ( شامی )
مسئلہ : خصی ( بدھیا ) بکرے کی قربانی جائز بلکہ افضل ہے ( شامی )
مسئلہ : اندھے کانے ، لنگڑ ے جانور کی قربانی درست نہیں۔ اسی طرح ایسا مرض اور لاغر جانور جو قربانی کی جگہ تک اپنے پیروں پر نہ جاسکے اس کی قربانی بھی جائز نہیں ۔ ( شامی )
مسئلہ: جس جانور کے دانت بالکل نہ ہوں یا اکثر نہ ہوں اس کی قربانی جائز نہیں ( شامی در مختار ) اسی طرح جس جانور کے کان پیدائشی طور پر بالکل نہ ہوں اس کی قربانی درست نہیں ۔
مسئلہ : اگر جانور صحیح سالم خریدا تھا پھر اس میں کوئی عیب مانع قربانی پیدا ہوگیا تو اگر خریدنے والا غنی صاحب نصاب نہیں ہے تو اس کے لیے اسی عیب دار جانور کی قربانی جائز ہے اور اگر یہ شخص غنی صاحب نصاب ہے تو اس پر لازم ہے کہ اس جانور کے بدلے دوسرے جانور کی قربانی کرے ۔ ( در مختار وغیرہ )
قربانی کا مسنون طریقہ
اپنی قربانی کو خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے اگر خود ذبح کرنا نہیں جانتا تو دوسرے سے ذبح کراسکتا مگر ذبح کے وقت وہاں خود بھی حاضر رہنا افضل ہے ۔
مسئلہ : قربانی کی نیت صرف دل سے کرنا کافی ہے زبان سے کہنا ضروری نہیں البتہ ذبح کرنے کے وقت بسم اللہ اللہ اکبر کہنا ضروری ہے سنت ہے کہ جب جانور ذبح کرنے کے لیے رو بقبلہ لٹائے تو یہ دعا پڑھے ۔
” انی وجھت وجھی للذی فطر السموت والارض حنیفاً وماانا من المشرکین ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین “
اور ذبح کرنے کے بعد یہ دعا پڑھے :
اللھم تقبلہ منی کما تقبلت من حبیبک محمد وخلیلک ابراھیم علیھما السلام
- اگر کسی اور کی جانب سے قربانی کررہا ہو تو ” منی ” کے بجائے ” من ” کہے اور اس کے بعد اس کا نام لے یا سب کی طرف نیت کر کے ” منا ” کہہ لے ۔
آداب قربانی :
قربانی کے جانور کو چند روز پہلے سے پالنا افضل ہے ۔
مسئلہ: قربانی کے جانور کا دودھ نکالنا یا اس کے بال کا ٹنا جائز نہیں اگر کسی نے ایسا کرلیا تو دودھ اور بال یا ان کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے ۔ ( بدائع )
مسئلہ: قربانی سے پہلے چھری کو خوب تیز کرلے اور ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کرے اور ذبح کے بعد کھال اتارنے اور گوشت کے ٹکڑے کرنے میں جلدی نہ کرے جب تک پوری طرح جانور ٹھنڈا نہ ہوجائے ۔ ( بدائع )
متفرق مسائل : عید کی نماز سے پہلے قربانی کرنا جائز نہیں لیکن جس شہر میں کئی جگہ نماز عید ہوتی ہو تو شہر میں کسی ایک جگہ عید ہوگئی تو پورے شہر میں قربانی جائز ہوجاتی ہے ۔ ( ذرائع )
مسئلہ : جس شخص پر قربانی واجب تھی اگر اس نے قربانی کا جانور خرید لیا پھر وہ گم ہوگیا یا چوری ہوگیا یا مرگیا تو واجب ہے کہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے اگر دوسری قربانی کرنے کے بعد پہلا جانور مل جائے تو بہتر ہے کہ اس کی بھی قربانی کردے لیکن اس کی قربانی اس پر واجب نہیں اگر یہ غریب ہے جس پر پہلے قربانی واجب نہ تھی نفلی طور پر اس نے قربانی کے لیے جانور خرید لیا یا پھر وہ مرگیا یا گم ہوگیا تو اس کے ذمہ دوسری قربانی واجب نہیں ، ہاں اگر گمشدہ جانور قربانی کے دنوں میں مل جائے تو اس کی قربنای کرنا واجب ہے اور اگر ایام قربانی کے بعد ملے تو اس جانور یا اس کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے ۔ ( بدائع )
قربانی کا گوشت :
- جس جانور میں کئی حصہ دار ہوں تو گوشت وزن کر کے تقسیم کیا جائے اندازہ سے تقسیم نہ کریں ۔
- افضل ہے کہ قربانی کا گوشت تین حصے کر کے ایک حصہ اپنے اہل وعیال کے لیے رکھے، ایک حصہ احباب واعزہ میں تقسیم کرے ۔ا یک حصہ فقراء ومساکین میں تقسیم کرے اور جس شخص کا عیال زیاد ہ ہو وہ تمام گوشت خود بھی رکھ سکتا ہے ۔
- قربانی کا گوشت فروخت کرنا حرام ہے ۔
- ذبح کرنے والے کی اجرت میں گوشت یا کھال دینا جائز نہیں۔ اجرت علیحدہ دینی چاہیے ۔
قربانی کی کھال
- قربانی کی کھال کو اپنے استعمال میں لانا مثلا ً مصلیٰ بنالیاجائے یا چمڑے کی کوئی چیز ڈول وغیرہ بنالیاجائے یہ جائز ہے لیکن اگر اس کو فروخت کیا تو اس کی قیمت اپنے خرچ میں لانا جائز نہیں بلکہ صدقہ کرنا اس کا واجب ہے اور قربانی کی کھال کو فروخت کرنا بدون صدقہ کے بھی جائز نہیں ۔ ( عالمگیری )
- قربانی کی کھال کسی خدمت کے معاوضے میں دینا جائز نہیں اسی لیے مسجد کے مؤذن یا امام وغیرہ کے حق الخدمت کے طور پر ان کو کھال دینا درست نہیں ۔
- مدارس اسلامیہ کے غریب اور نادار طلباء ان کھالوں کا بہترین مصرف ہیں کہ اس میں صدقہ کا ثواب بھی ہے اور احیائے علم دین کی خدمت بھی مگر مدرسین وملازمین کی تنخواہ اس سے دینا جائز نہیں ۔ وللہ الموفق والمعین ۔