اہل حدیث امام کی اقتدا میں نماز پڑھنا

سوال:
1۔ میرا تعلق دیو بند مسلک سے ہے اور میں ایک اہل حدیث مدرسہ میں بچیوں کو ناظرہ پڑھاتی ہوں وہیں رہتی ہوں۔ عورتیں نماز جمعہ،نماز عید اور تراویح وغیرہ پڑھنے آتی ہیں کیا میں بھی پنج وقتہ نمازیں اور مذکورہ نمازیں جماعت کے ساتھ پڑھ سکتی ہوں ؟جبکہ عورتوں کا کمرہ ہال نما ہے میری رہائش بھی اسی ایک کمرے میں ہے وہاں مکمل پردہ اور مقتدیوں کے بیچ پردہ ہے وہ سب ایک دوسرے کو دکھائی نہیں دیتے۔کیا اس صورت میں مجھے جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لینی چاہئے؟یا وہ نماز ادا کر رہی ہوں اور میں اس وقت نہ ادا کروں تو کئی سوال ہوں گے جو مجھ سے پوچھے جائیں گے۔
2۔ جمعہ کی دو رکعت سے پہلے کتنی رکعتیں اور بعد میں کتنی رکعتیں پڑھتے ہیں برائے مہربانی مجھے ان دونوں سوالات کا مکمل جواب عنایت فرمائیں میرا تیسرا جمعہ یہاں پر آگیا ہے مجھے نہیں معلوم کہ کیسے پڑھنا ہے اور جماعت کے ساتھ میری نماز پو بھی رہی ہے یا نہیں؟
الجواب باسم ملھم الصواب
واضح رہے کہ خواتین کا جماعت کی نماز میں شرکت کے لیے گھر سے نکلنا مکروہ ہے،خواتین کے لیے اپنے گھر میں ہی انفرادی نماز پڑھنا افضل ہے۔
تاہم آپ چونکہ جماعت کے وقت وہیں موجود ہوتی ہیں اس لیے آپ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرسکتی ہیں، بشرطیکہ غیر مقلد امام خوش عقیدہ ہو، یعنی ائمہ سلف کو بُرا بھلا نہ کہتا ہو اور مسائل میں مقتدیوں کے مذہب کی رعایت کرتا ہو، تو نماز اس کے پیچھے جائز ہے،اور اگر مقتدیوں کے مذہب کی رعایت نہ کرتاہو اور سلفِ صالحین اورائمہ کو برا بھلا کہتاہو تواس کی اقتدا میں نماز پڑھنادرست نہ ہوگا۔
2۔ جمعہ کی نماز میں کل 10 رکعت سنت مؤکدہ ادا کی جاتی ہیں، جس کی ترتیب یوں ہے کہ چار رکعت سنت مؤکدہ فرض سے پہلے، چھ رکعت سنت مؤکدہ فرض کے بعد جس میں پہلے چار رکعت ایک نیت کے ساتھ اور پھر دو رکعت ادا کی جائیں گی۔آخر میں دو رکعت نفل ادا کرنا بھی باعث فضیلت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ام حمید ساعدیۃ انھا جاءت الی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فقالت یا رسول اللہ انی احب الصلوٰة معك فقال صلی اللہ علیه وسلم قد علمت وصلوتك فی بیتك خیرلك من صلوٰتك فی حجرتك وصلوٰتك فی دارك خیرلك من صلوٰتك فی مسجد قومك وصلوٰتك فی مسجد قومك خیر لك من صلوتك فی مسجدی قال فامرت فبنی لها مسجدا فی اقصی شئی من بیتہا اظلمة فکانت تصلی فی فیه حتی لقیت اللہ عزوجل)
(الترغیب والترھیب ، 338)
ترجمہ:حضرت امّ حمید رضی اللہ عنہا نے بارگاہِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کا شوق ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارا شوق بہت اچھا ہے، مگر تمہاری نماز اندرونی کوٹھری میں کمرے کی نماز سے بہتر ہے، اور کوٹھری کی نماز گھر کے احاطے کی نماز سے بہتر ہے، اور گھر کے احاطے کی نماز محلے کی مسجد سے بہتر ہے، اور محلے کی مسجد کی نماز میری مسجد کی نماز سے بہتر ہے۔ چنانچہ حضرت امّ حمید ساعدی رضی اللہ عنہا نے فرمائش کرکے اپنے کمرے کے آخری کونے میں جہاں سب سے زیادہ اندھیرا رہتا تھا مسجد (نماز پڑھنے کی جگہ) بنوائی، وہیں نماز پڑھا کرتی تھیں، یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا۔

2۔الدر المختار وحاشية ابن عابدين (1 / 566):
”(ويكره حضورهن الجماعة) ولو لجمعة وعيد ووعظ (مطلقاً) ولو عجوزاً ليلاً (على المذهب) المفتى به؛ لفساد الزمان، واستثنى الكمال بحثاً العجائز والمتفانية“۔

3۔بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 285):
”وأما السنة قبل الجمعة وبعدها فقد ذكر في الأصل: وأربع قبل الجمعة، وأربع بعدها، وكذا ذكر الكرخي، وذكر الطحاوي عن أبي يوسف أنه قال: يصلي بعدها ستاً، وقيل: هو مذهب علي – رضي الله عنه -. وما ذكرنا أنه كان يصلي أربعاً مذهب ابن مسعود، وذكر محمد في كتاب الصوم أن المعتكف يمكث في المسجد الجامع مقدار ما يصلي أربع ركعات، أو ست ركعات أما الأربع قبل الجمعة؛ فلما روي عن ابن عمر – رضي الله عنه – «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يتطوع قبل الجمعة بأربع ركعات»؛ ولأن الجمعة نظير الظهر، ثم التطوع قبل الظهر أربع ركعات كذا قبلها.
وأما بعد الجمعة فوجه قول أبي يوسف إن فيما قلنا جمعًا بين قول النبي صلى الله عليه وسلم وبين فعله؛ فإنه روي «أنه أمر بالأربع بعد الجمعة»، وروي أنه «صلى ركعتين بعد الجمعة»، فجمعنا بين قوله وفعله، قال أبو يوسف: ينبغي أن يصلي أربعاً، ثم ركعتين كذا روي عن علي – رضي الله عنه – كي لايصير متطوعاً بعد صلاة الفرض بمثلها، وجه ظاهر الرواية ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «من كان مصلياً بعد الجمعة فليصل أربعاً». وما روي من فعله صلى الله عليه وسلم فليس فيه ما يدل على المواظبة، ونحن لانمنع من يصلي بعدها كم شاء، غير أنا نقول: السنة بعدها أربع ركعات لا غير؛ لما روينا”.

4۔ فتاوی شامی میں ہے:
“الحاصل أنه إن علم الاحتياط منه في مذهبنا فلا كراهة في الاقتداء به وإن علم عدمه فلا صحة، وإن لم يعلم شيئا كره.”
(کتاب الصلوۃ , باب الوتر و النوافل جلد 2/ 7)

5۔ (ماخوذ اذ فتاوی دار العلوم فتوی: 1280)
” اگر مسائل اختلافی میں حنفیہ کی رعایت کرتے ہیں، مثلاً باریک موزے پر مسح نہیں کرتے، قے کے بعد وضو کرلیتے ہیں وغیرہ اور ائمہ مجتہدین کو برا بھلا نہیں کہتے نہ ہی تقلید ائمہ کو غلط سمجھتے ہیں تو ایسے امام کے پیچھے نماز حنفی کی صحیح ہوجائے گی، مگر حنفی امام اگر پاس کی مسجد میں موجود ہے تو اس کے پیچھے پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔ اوراگر اہم مسائل اختلافی میں حنفیہ کی رعایت نہیں کرتے ائمہ مجتہدین کو برا کہتے ہیں، تقلید کو شرک سمجھتے ہیں تو ان کے پیچھے نماز درست نہیں ہوگی۔ جہاں تفصیلی احوال امام کے معلوم نہ ہوں وہاں ان کے پیچھے نہ پڑھنا احوط واولی ہے۔

6۔ فتاوی عالمگیری میں ہے:
”قال المرغيناني تجوز الصلاة خلف صاحب هوى وبدعة ولا تجوز خلف الرافضي والجهمي والقدري والمشبهة ومن يقول بخلق القرآن وحاصله إن كان هوى لا يكفر به صاحبه تجوز الصلاة خلفه مع الكراهة وإلا فلا. هكذا في التبيين والخلاصة وهو الصحيح۔“
(کتاب الصلوۃ , الفصل الثالث من یصلح اماما لغیرہ1/ 87)
فقط۔واللہ اعلم بالصواب
٩ربیع الثانی ١٤٤٥ھ
28اکتوبر 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں