ایصال ثواب کےلیے دن اور وقت مقرر کرنے کاحکم

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔

کچھ لوگوں نے معمول بنایا ہوا ہے کہ پورا دن درود پاک،استغفار اور آیت کریمہ پڑھتے ہیں اور رات کو آدھا گھنٹہ سب ایک وقت میں دعائیں مانگتے ہیں اور جس نے پورے دن جتنا پڑھا وہ سب بتاتے ہیں اور پھر سب کو اس کا ٹوٹل بھیجا جاتاہے ،کیا یہ بھیجنا صحیح ہے؟

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!

تمہیداً عرض ہے کہ ایصال ثواب کے لیے نہ ہی مقدار کی کوئی قید ہے نہ ہئیت کی،نیز انفرادی بھی جائز ہے اور اجتماعی بھی ۔بشرطیکہ کسی طریقے کو لازم سمجھ کر نہ کیا جائے ،اور نہ کرنے والے پر طعن کیا جائے۔ تمہید کے بعد اصل سوال کا جواب یہ ہے کہ کہ اگر یہ طریقۂ کار گھر کا ماحول بنانے اور گھر والوں کی تربیت کے لیے اختیار کیا گیا ہے تو درست ہے ،اگر اسی طریقۂ کار کو لازم سمجھا جائے تو پھر بدعت ہوجائے گا۔

”حضرت فقیہ الامت مفتی اعظم ہند مفتی محمودحسن گنگوہی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: ایصال ثواب میں نہ تاریخ کی قید ہے کہ شب برأت ۱۵/شعبان، ۱۰/محرم اور ۱۲/ربیع الاوّل ہو۔ نہ ہیئت کی قید ہے کہ چنوں پر کلمہ طیبہ پڑھا جائے یا کھانا سامنے رکھ کر فاتحہ دی جائے۔ نہ سورتوں وآیتوں کی تخصیص ہے کہ قل اور پنج آیات ہو اورنہ کسی اور قسم کی قید ہے یہ سب قید ختم کردیا جائے کہ یہ شرعاً بے اصل ہے، صحابہ نے بغیر ان قیدوں کے ثواب پہنچایا ہے“ (فتاویٰ محمودیہ،۱/۲۰۶،قدیم)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) الاصل اَنَّ کلمَن اَتی بعبادةٍ مّا أی سواء کانت صلاةً أو صومًا أو صدقةً أو قراء ةً أو ذکرًا أو طوافًا أو حجًا أو عمرةً ․․․ جمیع أنواع البر (شامی وبحر) الافضل لمن یتصدق نفلاً اَن ینوی لجمیع المومنین والمومنات لانہا تصل الیہم ولا ینقص من أجرہ شیء ہو مذہب أہل السنة والجماعة (شامی) فقط واللہ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں