حج بیت اللہ دین اسلام کا ایک اہم رکن ہے جس کی ادائیگی صاحب استطاعت مسلمان پر فرض ہے ، مقام افسوس ہے کہ دیگر فرائض کی طرح حج کے مقدس فریضے میں بھی کئی طرح کی کوتاہیاں اور غلط فہمیاں عام ہیں جن کی اصلاح ۔ ظاہر ہے ضروری ہے۔ ان میں سے کچھ غلط فہمیوں کا تعلق حج کی فرضیت سے اور کچھ کا حج کی ادائیگی سے ہے ۔
حج پروازوں کے مبارک سلسلے کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔موقع ہے کہ ان غلط فہمیوں کو نشان زد کر کے عوام الناس کو ان سے مطلع کیاجائے ! ہمارا کام صرف دین کی صحیح بات کا ابلاغ (پہمچانا ) ہے ،باقی ہدایت اور اصلاح کے فیصلے اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں۔
1۔بڑھاپے سے حج کا کوئی تعلق نہیں :
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حج بڑھاپے میں کرنے کا کام ہے۔اس لیے وہ حج فرض ہونے کے باوجود حج اس وقت تک مؤخر کیے رہتے ہیں جب تک بڑھاپے کی دہلیز کو نہ پہنچ جائیں ۔یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے ۔ حج فرض ہونے کا بڑھاپے اور جوانی سے تعلق نہیں بلکہ نصاب کا مالک ہونے سے ہے ،جو بالغ مسلمان مرد یا عورت ،حج کے نصاب کا مالک ہوجائے اس پر حج کی فوری ادائیگی فرض ہے ۔اس کو بلا وجہ مؤخر کرنا جائز نہیں۔رہا یہ سوال کہ حج کا نصاب کیاہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس بالغ ،تندرست مسلمان مرد یا عورت کے پاس ضروریات زندگی سے زائد حج کوٹے کے برابر مال ہو وہ نصاب حج کا مالک ہے۔بالغ ہونے کی قید اس لیے لگائی گئی کہ نا بالغ پر حج فرض نہیں اور تندرست کی قید اس لیے لگائی گئی کہ ہاتھ پاؤں اور آنکھوں سے معذور پر حج فرض نہیں۔
حج ایک ایسا فریضہ ہے جو ایک بار کسی پر عائد ہوجائے تو زندگی بھر فرض رہتا ہے ۔ چاہے وہ تنگ دست اور کنگال ہی کیوں نہ ہوجائے ۔
کتب فقہ میں لکھا ہے کہ حج فرض ہونے کے بعد کوئی شخص تنگ دست اور محتاج ہوجائے تب بھی اس پر قبضہ وغیرہ لے کر حج کے لیے جانے کی کوشش کرنا ضروری ہے ۔ (شامی )
حقیقت یہ ہے کہ حج کرنے کا جو مزہ اور لطف جوانی میں ہے وہ بڑھاپے میں میسر نہیں آسکتا، حج ایک مشقت بھرا سفر ہے اور مشقتیں اور دشواریاں برداشت کرنے کی جو قوت انسان کے اندر جوانی میں ہوتی ہے وہ بڑھاپے میں نہیں رہتی ۔ پھر زندگی اور مال ودولت کا کوئی بھروسہ بھی نہیں ۔اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ حض فرض ہونے کے بعد اس کو بلاوجہ مؤخر نہ کرے اور جلد از جلد حج کے فریضہ سے سبکدوش ہوجائے تاکہ وہ کسی بھی قسم کے گناہ سے بچا رہے ۔
2۔ اولاد کی شادی کو مقدم سمجھنا :
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک تمام اولاد کی شادی نہ ہوجائے اس وقت تک چھوٹوں پر حج فرض نہیں سمجھتے ۔حالانکہ نماز، روزے،زکوۃ کی طرح حج بھی انفرادی طور پر عائد ہونے والا فریضہ ہے ۔ بڑوں کے حج کرنے ،نہ کرنے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔/
4۔ سفر حج کو مال کا ضیاع سمجھنا:
بعض روشن خیال لوگوں کا یہ نظریہ ہے کہ اتنی بھاری رقوم حج کے لیے خرچ کرنے کے بجائے ریاست کے فقراء پر اسے خرچ کیاجانا چاہیے! اس نظریے کے حامل وہ ہی لوگ ہیں جو عیدالاضحیٰ کے موقع پر جانوروں کی قربانی کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ زکوۃ کے لیے تملیک (محتاج کو مالک بنانا) ضروری نہیں سمجھتے اور دین کے ہر مسئلے میں الپنی عقل ناقص کو فوقیت دینے کے قائل ہیں ۔ظاہر ہے کہ مسلمان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کو قبول کرنے کا پابند ہے،اپنی عقل کا نہیں ۔اللہ کے حکم مقابلے میں عقل کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے ۔
ادائیگی حج سے متعلق کوتاہیاں :
1۔حج کے احکام سے ناواقفیت :
جس طرح دنیا کے ہر کام اور پیشے ( بلکہ ہر کھیل ) کے اصول اور ضابطے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فرائض کے بھی اصول ہیں ،جن کا خیال کیے بغیر انسان،اللہ کی فرض کردہ ذمہ داریوں سے کما حقہ بری نہیں ہوسکتا۔مسلمان فریضہ حج اد کرنے کے لیے ایک بھاری رقم خرچ کرتا ہے ،اتنی رقم خرچ کرنے کے باوجود بھی اگر اس کا حج ، حج کے ضابطوں کے مطابق نہ ہو یا اس پر کئی اقسام کے جرمانے لاگو ہوجائیں تو یقینا یہ گھاٹے کا سودا ہے ۔اس لیے حج درخواست منظور ہونے کے بعد عازم حج کو چاہیے کہ وہ حج کا طریقہ اور اس کے ضروری احکام وہدایات سے واقفیت حاصل کرے ۔اس کے لیے حج تربیتی کورسز میں شرکت،حج سے متعلق مستند کتابوں کا مطالعہ اور سفر حج میں علمائے کرام اور مناسک حج سے واقف رفقا کا انتخاب ضروری ہے ۔
2۔ہجوم کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل : سفر میں ہونے کی وجہ سے انسان کی طبیعت اور مزاج کا وہ اعتدال باقی نہیں رہتا جو اسے حضر کی زندگی میں حاصل ہوتا ہے ۔اسی وجہ سے سفر کو “عذاب کا ایک حصہ “کہاگیا ہے ۔ پھر سفر حج میں تو بے پناہ مجمع ہوتا ہے ۔ جگہ جگہ ازدحام اور دھکم پیل کی صورت حال ہوتی ہے ۔مختلف ممالک سے آئے ہوئے عازمین حج کی طبیعتوں کا باہم ٹکڑاؤ ہوتا ہے اور قدم قدم پر اپنے مفاد کا دوسرے کے مفاد سے تصادم ہوتا ہے ۔اس لیے اس مقدس سفر میں ان امور کا خیال ضرور رکھنا چاہیے :
*حرم شریف،مسجد نبوی اور خود فریضہ حج کا خیال رکھتے ہوئے ہر قسم کے لڑائی جھگڑے گالم گلوچ سے بچا جائے ۔انتہائی افسوس ناک منظر ہوتا ہے جب لوگ عین بیت اللہ اور عین روضہ رسول ﷺ کے سامنے باہم دست وگریبان نظر آتے ہیں ۔
*ہجوم کی کثرت کے باعث بعض اوقات عورتوں کے پردے کا عہ رکھ رکھاؤ قائم نہیں رہ پاتا جو عام حالات میں ہوتا ہے پھر حج کے موقع پر بہت سی وہ خواتین بھی آئی ہوتی ہیں جو پردے اور شرم وحیاء کے تقاضوں سے خود کو آزاد سمجھتی ہیں ۔ نتیجتا غیر محرم عورت پر نگاہ پڑنے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے اس سفر میں مردوں کو اپنی نظریں نیچی رکھنے کا خاص اہتمام کرنا ہوگا ۔
*حجر اسود کو بوسہ دینا،طواف کے بعد مقام ابراہیم کے سامنے دو رکعت پڑھنا اور بعض وہ امور جو صرف مستحب کا درجہ رکھتے ہیں ان کی ادائیگی کے لیے ایذاء مسلم جیسے حرام کا ارتکاب بڑی نادانی کی بات ہوگی ۔
3۔فساد بیت : بہت سے لوگ حج اس لیے کرتے ہیں کہ لوگ انہیں حاجی کہنے لگیں گے ۔یاد رہے کہ ریاء اور نمود عنمائش کے لیے کیاگیا حج اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول نہیں ۔ویسے بھی آج کل حاجی ہونا کوئی باعث فخر چیز نہیں رہی ۔اس لیے ایسی فاسد نیت کو دل میں جگہ نہیں دینی چاہیے ! اسی طرح بعض لوگ کاروبار اور تجارتی اغراض سے حرم شریف کا سفر کرتے ہیں اور بہت سے لوگ اپنی خاص مرادیں اور منتیں مانگنے کے لیے بھی حاضر ہوتے ہیں ۔یہ سب چیزیں فساد نیت کے زمرے میں آتی ہیں ۔ جن سے بچنا قبولیت حج کی شرط اول ہے ۔
4۔بعض لوگ حرم شریف میں تھوکنے اور ناک صاف کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ جب کہ بعض آب زم زم کی ٹونٹیوں کے نیچے نہانا شروع کردیتے ہیں ۔ایسی چیزیں تہذیب وتربیت کے فقدان کی عکاسی کرتی ہیں ۔ان سے بچنا ضروری ہے۔