حالت جنگ میں نماز کا حکم

حالت جنگ میں نماز کا حکم

جب مسلمان حالت جنگ میں ہو اور نماز کا وقت ہوجائے اور تمام مسلمانوں کی خواہش ہو کہ امیر لشکر ہی کی اقتداء میں نماز ادا کریں ،مگر دشمن کے حملے کا بھی اندیشہ ہو،تو ایسی حالت میں نماز اس طرح ادا کرے کہ تمام لوگوں کے دو حصے کردئیے جائیں، ایک حصہ دشمن کے مقابلے میں رہے اور دوسرا حصہ امام کے ساتھ نماز شروع کردے۔ اگر تین یا چار رکعت کی نماز ہو، جیسے: ظہر، عصر، مغرب، عشا اور یہ لوگ مسافر نہ ہوتو جب امام دو رکعت نماز پڑھ کر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہونے لگے تب یہ حصہ چلا جائے اور اگر یہ لوگ مسافرہوں یا دو رکعت والی نماز ہو جیسے فجر، جمعہ، عیدین کی نمازتو ایک ہی رکعت کے بعد یہ حصہ چلا جائے اور دوسرا حصہ آکر امام کے ساتھ بقیہ نماز پڑھے، امام کو ان لوگوں کے آنے کا انتظار کرنا چاہیے پھر جب امام بقیہ نمازمکمل کرلے تو سلام پھیردے اور یہ لوگ بغیرسلام پھیرے دشمن کے مقابلہ میں چلے جائیں اور پہلے لوگ یہاں آکر اپنی بقیہ نماز بغیر قراء ت کے مکمل کرلیں اور سلام پھیر دیں، اس لیے کہ وہ لوگ لاحق ہیں پھر یہ لوگ دشمن کے مقابلے میں چلے جائیں اور دوسرا حصہ یہاں آکر اپنی نماز قراء ت کے ساتھ مکمل کرلے اور سلام پھیردے، اس لیے کہ یہ لوگ مسبوق ہیں۔

دوسرے حصہ کا امام کے ساتھ بقیہ نماز پڑھ کر چلاجانا اور پہلے حصہ کا آکر اپنی نمازمکمل کرنا، اس کے بعد دوسرے حصہ کا یہیں آکر نماز مکمل کرنا مستحب اور افضل ہے، ورنہ یہ بھی جائز ہے کہ پہلا حصہ نماز پڑھ کر چلا جائے اور دوسرا حصہ امام کے ساتھ بقیہ نماز پڑھ کر اپنی نماز وہیں مکمل کرلے، پھر دشمن کے مقابلہ میں جائے،جب یہ لوگ وہاں پہنچ جائیں تو پہلا حصہ اپنی نماز وہیں پڑھ لے،یہاں نہ آئے۔

اگر یہ اندیشہ ہو کہ دشمن بہت ہی قریب ہے اور جلد یہاں پہنچ جائے گا اور اس خیال سے ان لوگوں نے مذکورہ بالا طریقہ پر نماز پڑھی اس کے بعد یہ خیال غلط نکلا تو امام کی نماز تو صحیح ہوگئی مگر مقتدیوں کو اس نماز کا اعادہ کرلینا چاہیے، اس لیے کہ وہ نماز نہایت سخت ضرورت کے لیے عام قاعدے کے خلاف عملِ کثیر کے ساتھ جائز کی گئی ہے،شدید ضرورت کے بغیراس قدر عملِ کثیر کرنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔

اگر کوئی ناجائز لڑائی ہو تو اس وقت اس طریقے سے نماز پڑھنے کی اجازت نہیں، مثلاً: باغی لوگ اسلامی حکمران پر چڑھائی کریں یا کسی دنیاوی ناجائز غرض سے کسی سے لڑے تو ایسے لوگوں کے لیے اس قدر عملِ کثیر معاف نہیں ہوگا۔

اگر اطمینان سے قبلہ کی طرف نماز پڑھ رہے ہوں اور اسی حالت میں دشمن آجائے تو فوراً ان کو دشمن کی طرف پھر جانا جائز ہے اور اس وقت استقبالِ قبلہ شرط نہیں رہے گا۔

قبلہ کی مخالف سمت میں نماز شروع کرنے کے بعددشمن بھاگ جائے تو چاہیے کہ فوراً قبلہ کی طرف پھر جائیں، ورنہ نماز نہیں ہوگی۔

اگر کوئی شخص دریا میں تیر رہا ہو اور نماز کا وقت ختم ہونے لگے تو اس کو چاہیے کہ اگر ممکن ہو تو تھوڑی دیر تک اپنے ہاتھ پیر کوحرکت نہ دے اور اشاروں سے نماز پڑھ لے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں