الحاد کے معنی ومفہوم

 الحمدللہ وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی

امابعد!

مولانا سید ابو الحسن علی الندوی رحمہ اللہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔سینکڑوں عربی اردو کتابوں کے مصنف ہیں۔ زمانے کے نبض شناس عالم ہیں۔ آپ کے افکار ذہن کو جلا بخشتے ہیں ۔دلوں میں ہمت ، تحریک اور عزم  نوبیدار کرتے ہیں۔ عجم  کیا، عرب بھی آ پ کی بزرگی کے قائل ہیں ۔عظیم خدمات کی بدولت عالم اسلام نے آپ کو “مفکر اسلام” کا لقب دیا۔

“الحاد”    کے بارے میں مولانا  فرماتے ہیں:

“آج رسول اللہ ﷺ کے سرمایے پر ڈاکا ڈالا جارہا ہے، آپ کے قلعے میں شگاف پیدا کیے جارہے ہیں، آپ کے دارالسلطنت پر حملہ کیا جارہا ہے۔اگر آج امام ابوحنیفہ  ، امام شافعی، امام مالک، امام احمد بن حنبل ہوتے  تو میں یقین کرتا ہوں کہ شاید وہ فقہ کی تدوین بھی تھوڑی دیر کے لیے روک دیتے اور اس مسئلے…الحاد  …کی طرف  توجہ کرتے۔”

 (پاجا سراغ زندگی: ص 48 طبع نشریات اسلام)

“آج تمہارے لیے کام کے دوسرے میدان ہیں۔ آج تمہارے لیے الحاد  سے پنجہ آزمائی کا موقع ہے۔تمہارے لیے دہریت ، مادیت سے آنکھ ملانے کا موقع ہے۔یقین مانو کہ اس سے امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک وامام احمد کی روح نہیں، محمدعربی ﷺ کی روح خوش ہوگی۔”  (پاجا سراغ زندگی: ص 48 طبع نشریات اسلام)

             یہ حقیقت ہے کہ آج   الحاد کی طاقت بڑھ رہی ہے،جس کے اعداد وشمار  نہایت تشویش ناک اور   باعث اضطراب ہیں۔ منظم طریقے سے  مذہب بیزاری پیدا   کی جا رہی ہے۔ الحاد کے ایجنٹ ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ملحدین، مسلمانوں کے بھیس میں  اللہ، رسول ، آخرت، قرآن ، حدیث اور احکام اسلام  پر سوالات اٹھاکر لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں۔مذہبی امتیازات ختم کرنے کی بات کی جارہی ہے ۔اسلام سے کہا جارہا ہے کہ وہ “وثنیت” اور “سیکولرازم ” کے ساتھ ضم ہوجائے۔حدیث کی اہمیت ختم کی جارہی ہے۔رواۃ حدیث کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔سلف کی تحقیقات کو قلم زد کیا جارہا ہے۔ جہاد،مدرسہ،داڑھی،  ٹوپی ، برقعہ ،مولوی اور اس جیسے الفاظ   گالی   کے مترادف ہوچکے ہیں۔

ان حالات میں الحاد کامقابلہ بے حد ضروری ہے۔علی میاں مرحوم نے یہ بات بالکل درست فرمائی ہے کہ آج اگر ائمہ اربعہ زندہ ہوتے تووہ بھی  فقہ کی تدوین کا کام چھوڑ کر رد الحاد کے کام میں لگ جاتے۔یہ کام  کسی  مسلک  نہیں ، دین محمدی کی ضرورت ہے اور اس سے براہ راست جناب نبی کریم ﷺ کی روح مبارک خوش ہوگی۔

الحاد کیا ہے؟ اس کی تاریخ کیا  ہے؟ موجودہ دور میں الحاد پنپنے کے   اسباب ومحرکات کیا ہیں؟اور اس کے خاتمے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ گزشتہ دنوں   اس حوالے سے   ایک تحریر مرتب کی گئی ہے جس میں ان سب موضوعات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے  ۔مرتب نے  کئی ساتھیوں کو اس کامسودہ  دکھایا ہے۔تحریر مفید اور ضروری  ہےاس لیے  آئندہ  اسے قسط وار پیش کیا جائے گا۔قارئین   موضوع کے  حوالے سے مفید تجاویز دینا چاہیں تو بذریعہ میل بھیج دیں ؛ تاکہ ان کا بھی اس مبارک کام میں حصہ ہوجائے۔ واللہ الموفق  والمعین،ولاحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم، وصلی اللہ علی النبی الکریم الامین

محمدانس عبدالرحیم

786anasraheem@gmail.com

www.suffahpk.com

الحاد کا لفظ عربی زبان میں لغوی اعتبار سے انحراف یعنی درست راہ سے ہٹ جانے کے معنوں میں آتا ہے۔الحاد کو انگریزی میں atheism کہا جاتاہے ۔

لحد کا لفظ عام طور پر اردو میں بھی قبر کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے

لحد سے مراد اس طاق یا دراڑ یا درز کی ہوتی ہے کہ جو قبر میں ایک جانب ہٹی ہوئی ہوتی ہے اور جس میں میت کو رکھا جاتا ہے۔ چونکہ یہ طاق یا درز درمیان سے ہٹی ہوئی ہوا کرتی ہے یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ قبر کے درمیان سے منحرف ہوجاتی ہے اسی وجہ سے اس کو لحد کہا جاتا ہے اور اسی لحد سے الحاد بھی بنا ہے۔

الحاد کا لفظ قرآن کی آیات میں اپنا ماخذ رکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کا بیان قرآنی مفہوم کے لحاظ سے کیا جانا ضروری ہے اور کسی ایک انگریزی اصطلاح کو اس کی جانب سختی سے نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن کی سورت ، الاعراف (The Heights) کی آیت 180 میں یلحدون (یعنی لحد کرنا یا انحراف کرنے) کا لفظ آتا ہے۔

عموماًاس لفظ کا الحاق وجودِ خدانبوت و رسالت اور آخرت میں سے کسی ایک کے یا تینوں کے انکار پر کیا جاتاہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں