جسم انسانی کی تصویر کشی کرنا

سوال: اگر کسی بچی کو اسکول کے پراجیکٹ میں پورا انسانی جسم بنانا پڑے چہرے کے نقوش کے ساتھ تو کیا یہ جائز ہے؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر مصوری کے شوق میں صرف آنکھ یا ناک یا ہاتھ پاوں کا ایک حصہ بنائیں تو کیا یہ بناسکتے ہیں؟

الجواب باسم ملھم الصواب

سوال میں مذکور دونوں سوالات کے جوابات بالترتیب ملاحظہ ہوں:

۱۔واضح رہے کہ مکمل انسانی جسم کی تصویربنانا کسی بھی مقصد کے لیے شرعاً ناجائز ہےاس لیے اسکول پراجیکٹ کی وجہ سے بھی تصویر بنانے سے بچا جائےتاہم اگر مجبوراتصویر بنانی پڑے تو چہرے کے اعضاء ظاہر کیے بغیر بنائی جائے کیوں کہ اس کی گنجائش ہے۔

۲۔ اعضاء انسانی میں سے اگر الگ الگ عضو کی تصویر بنائی جائے تو یہ جائز ہےلیکن اس طرح تصویر بنانا جائز نہیں کہ جس میں چہرہ واضح ہو ، یہ سخت گناہ کبیرہ ہے جس پر احادیث مبارکہ میں وعیدیں آئی ہیں۔

چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

” ان اشد الناس عذابا یوم القیمة المصورون”

ترجمہ: روز قیامت سخت ترین عذاب میں تصویر بنانے والے ہوں گے۔ (صحیح مسلم: 1670/3)

1۔مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح – (13 / 244):

“وفي شرح السنة: فيه دليل على أن الصورة إذا غيرت هيئتها بأن قطعت رأسها أو حلت أوصالها حتى لم يبق منها إلا الأثر على شبه الصور فلا بأس به، وعلى أن موضع التصوير إذ نقض حتى تنقطع أوصاله جاز استعماله. قلت: وفيه إشارة لطيفة إلى جواز تصوير نحو الأشجار مما لا حياة فيه، كما ذهب إليه الجمهور وإن كان قد يفرق بين ما يصير ومآلا وانتهاء وبين ما يقصد تصويره ابتداء.”.

2۔حاشية ابن عابدين – (1 / 648):

“(قوله: أو مقطوعة الرأس ) أي سواء كان من الأصل أو كان لها رأس ومحي وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق له أثر أو يطليه بمغرة أو بنحته أو بغسله؛ لأنها لاتعبد بدون الرأس عادةً، وأما قطع الرأس عن الجسد بخيط مع بقاء الرأس على حاله فلاينفي الكراهة؛ لأن من الطيور ما هو مطوق فلايتحقق القطع بذلك، وقيد بالرأس؛ لأنه لا اعتبار بإزالة الحاجبين أو العينين؛ لأنها تعبد بدونها، وكذا لا اعتبار بقطع اليدين أو الرجلين، بحر.

(قوله: أو ممحوة عضو الخ ) تعميم بعد تخصيص وهل مثل ذلك ما لو كانت مثقوبةً البطن مثلاً، والظاهر أنه لو كان الثقب كبيراً يظهر به نقصها فنعم وإلا فلا، كما لو كان الثقب لوضع عصا تمسك بها كمثل صور لخيال التي يلعب بها؛ لأنها تبقى معه صورة تامة، تأمل. (قوله: أو لغير ذي روح ) لقول ابن عباس للسائل: فإن كنت لا بد فاعلاً فاصنع الشجر وما لا نفس له. رواه الشيخان. ولا فرق في الشجر بين المثمر وغيره خلافاً لمجاهد، بحر”۔

فقط۔ واللہ اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں