خادم کو عیدی کے طور پہ زکوۃ کی رقم دینا

سوال : اگر کسی نے اپنے خادم کو عید کی خرچی کہ کر زکوۃ کی رقم دے دی تو کیا اس کی زکوۃ ادا ہوجائے گی یا لوٹانی پڑے گی؟ اور اگر بغیر کچھ کہے عید کے دن خادم یا خادمہ کو زکوۃ کی رقم دی جسے وہ عید کی خرچی یا عیدی سمجھتے رہے تو آیا اس طرح دینے سے زکوۃ ادا ہوجائے گی؟

الجواب باسم ملهم الصواب!

واضح رہے کہ مستحقِ زکوۃ کو زکوۃ دیتے وقت زکوۃ کا نام لینا ضروری نہیں ہے، عیدی یا ہدیہ کہہ کر بھی زکوۃ دی جا سکتی ہے، بشرطیکہ دل میں زکوۃ دینے کی نیت ہو۔
لہذا مذکورہ شخص دل میں زکوۃ کی نیت کرکے خادمہ یا خادم کو عید کی خرچی کہہ کر زکوۃ کی رقم دے سکتا ہے،اس سے زکوۃ ادا ہو جائے گی،تاہم زکوۃ کی رقم اجرت کے طور پر نہیں دی جاسکتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

1)ومن أعطى مسكينا دراهم وسماها هبة أو قرضا ونوى الزكاة فإنها تجزيه، وهو الأصح۔

(فتاوی الهندية: 171/1)

2) دفع الزكاة الى صبيان اقاربه برسم عيد او الى مبشرا ومهدي الباكورة جاز وفي الشاميه تحت (قوله دفع الزكاة الى صبيان اقاربه)اي العقلاء والا فلا يصح الا بالدفع الى ولي الصغير۔۔۔

( رد المحتار علی الدر المختار:2/356)

3) ويجوز دفعها الى من يملك اقل من النصاب وان كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي۔

(فتاوی الھندية: 1/186)

والله سبحانه وتعالى اعلم!

21/10/1444
11/5/2023

اپنا تبصرہ بھیجیں