ختم قرآن پر شکر نعمت

نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم، امّابعد!
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذَالِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ط ہُوَ خَیْرٌ مِمَّا یَجْمَعُوْنَ o (پارہ ۱۱ ،سورۃ یونس: آیت ۵۸)

میرے محترم دوستو اور بزرگو! اس وقت صرف دوچار باتیں عرض کرنی ہیں کوئی لمبا چوڑا وعظ مقصود نہیں ہے۔ میرے دوستو ! اللہ نے جو حفاظ حضرات کو قرآن پڑھنے کی اور دوسروں کو قرآن سننے کی نعمت عطا فرمائی ہے، تو اس نعمت کی حالت میں بندے پردوذمہ داریاں لازم آتی ہیں ایک تو یہ کہ اللہ جل شانہ کا شکر ادا کرے، کیو نکہ اگر ہم اللہ J کی توفیق سے قرآن پڑھ لیتے ہیں یا کھڑے ہوکر سن لیتے ہیں تو غور کرلینا چاہیے کہ یہ کھڑے ہو نے کی طاقت یہ قرآن پڑھنے کی قوت،یہ زبان کی گویائی ، یہ ساری دولتیں اللہ کی عطا کردہ ہیں۔ اگر اللہ ہمیں یہ قوتیں عطانہ فرمائیں تو ہم ایک لمحہ بھی کھڑے نہیں ہوسکتے۔ ہماری نصیحت کے لیے اللہ ایسے نقشے دنیا میں دکھلاتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنی قوت پر گھمنڈ نہ ہو جائے اور اس کے سبب سے ہم معاذاللہ ، اللہ  کی نا شکری کرنے والے نہ بن جائیں۔ 

برصغیر پاک وہند میں ایک بہت بڑے خطیب گزرے ہیں جن کو دنیا سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری کے نام سے یاد کرتی ہے۔ ان کو اللہ Jنے ایسا لحن داؤدی عطا کیا تھا کہ ہندوبھی ان کا قرآن سن کر متاثر ہوجاتے تھے۔ حضرت ایک دفعہ علی گڑھ یونیورسٹی تشریف لے گئے تو وہاں کے نوجوانوں نے کہا کہ ہم حضرت کا وعظ نہیں سنیں گے کیونکہ اس وقت حضرت کے ساتھ ان کا بہت زیادہ اختلاف چل رہاتھا۔ اس وقت حضرت نے ان سے کہا کہ اچھا بھئی تم کہتے ہوکہ وعظ نہ کروں تومیں وعظ نہیں کرتا ۔ البتہ اتنا تو ہوکہ تمہیں اللہ جل شانہ کا قرآن سنادوں ۔ انھوں نے کہا کہ قرآن سننے کو تو ہم تیار ہیں۔ تو حضرت نے سورۃ یوسف کی تلاوت شروع کی اور پوری سورۃ ختم کردی تو مجمع پر ایسا سناٹا چھاگیا گویا یہاں کوئی ذی روح ہی نہیں ہے۔ ایسا اللہ جل شانہ نے ان کی تلاوت قرآن میں اثر رکھا تھا۔ اس کے بعد فرمانے لگے میاں ! اگر کہو تو اس کا ترجمہ بھی کردوں۔ مجمع نے کہا کہ سنادیں۔ حضرت نے ترجمہ سنانا شروع کیا ہے، تو لکھنے والے نے لکھا ہے کہ فجر کی اذان کی جب آواز سنائی دی تو حضرت نے اس وقت فرمایا: واخر دعوانا ان الحمدللّٰہ رب العالمین تمام تعریفیں اللہ جل شانہ کے لیے ہیں جس نے یہ توفیق عطا فرمائی۔ پوری رات سننے کے بعد بھی مجمع یہ کہنے لگا کہ اب اور سنائیں ہم اور سننے کو تیار ہیں لیکن فرمایا اب تو رات بیت گئی، صبح کی اذانیں ہوگئیں۔ اب پھر کبھی موقع ملاتو پھر اللہ کا قرآن سنائیں گے۔

میرے دوستو! انسان اندازہ نہیں کرسکتا کہ اللہ نے قرآن کے اندر کیسی لذت رکھی ہے۔ حضرت کے بارے میں ایک اور بات یاد آگئی کہ حضرت جب پہلی دفعہ لاہور گئے ہیں تو حضرت کو کوئی جانتا نہیں تھا۔ اب مجمع کو کیسے جوڑا جائے تاکہ وعظ ہوسکے تو حضرت نے وہاں قرآن کی تلاوت شروع کردی تو وہاں اتنا مجمع ہوگیا کہ کوئی حدوحساب ہی نہیں۔ پھر حضرت نے وہاں وعظ فرمایا اور آپ اکثر یہ فرمایا کرتے تھے کہ قرآن سے محبت اور انگریز سے نفرت میرا مشن ہے۔ فرماتے تھے کہ انگریز اتنا سازشی ہے کہ سمندر میں اگر دو مچھلیاں لڑتی ہوں تو اس میں بھی انگریز کی سازش ہوگی۔تو اصل بات یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ یہ جو قوتیں اور صلاحیتیں اللہ نے ہمیں دی ہیں یہ ان کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا اور جب چھیننے پر آتے ہیں تو کوئی طاقت اسے واپس نہیں لے سکتی۔ 

جب حضرت شاہ صاحب کا آخری وقت آیا تو برصغیر کا وہ خطیب جو گھنٹوں قرآن پڑھتا تھا ایک وقت وہ آیا کہ زبان نے بولنا بند کردیا ، اس وقت اشاروں سے حضرت k فرمانے لگے کہ میں نے اس زبان سے پوری دنیا میں قرآن سنایا ہے لیکن آج اللہ  نے اس قوت کو چھین کر مجھے یہ بتلادیا کہ یہ قوت ہماری دی ہوئی ہے، اگر ہم چھیننا چاہیں تو دنیا کی کوئی طاقت واپس نہیں لے سکتی۔

جان دینا اصل کمال نہیں:

میرے دوستو! اللہ کا کتنا شکرادا کرنے کاموقع ہے کہ اللہ نے ہمیں قرآن پڑھنے اور سننے کی توفیق عطا فرمائی۔ مگر جہاں یہ خوشی کا موقع ہے وہاں ڈرنے کا بھی موقع ہے کیونکہ وہ ذات بڑی بے پروا ہ ہے، وہ ذات غنی ہے، وہ ہماری محتاج نہیں ہے نہ وہ ہماری نماز کی محتاج ہے نہ ہماری تراویح کی اور نہ ہماری کسی دوسری عبادت کی۔ وہ اگر قبول فرمالے تو اس کا محض فضل ہے۔

اس موقع پر ایک بات یاد آگئی کہ ہمارے اکابرین میں سے شیخ الہند حضرت مولانا محمودالحسن  کو مکہ مکرمہ میں انگریزوں نے گرفتار کرلیا اور کالے پانی کی سزا دے کر مالٹا کی جیل میں پہنچادیا اور اور حضرت کے رفقاء جن میں مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا عبدالوحید  ،مولانا عزیرگل صاحب وغیرہ بھی حضرت کے ساتھ تھے۔ وہاں انگریز نے ان حضرات کو پھانسی کا حکم دے دیا کہ یہ انگریز کے دشمن ہیں اور بغاوت پیداکرنا چاہتے ہیں۔

جب یہ بات ان حضرات تک پہنچی تو یہ حضرات بہت خوش ہوئے کہ اس طورپر مریں گے تو اللہ  ان شاء اللہ شہادت کی موت عطا فرمائیں گے اور آخرت میں بڑے مقامات عطافرمائیں گے۔ اسی خوشی میں یہ حضرات حضرت شیخ الہند حضرت مولانا محمودالحسن  (جو کہ دارالعلوم دیوبند کے پہلے شاگرد اور پہلے شیخ الحدیث ہیں) کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ حضرت ہمارے لیے بہت بڑی خوشخبری ہے۔ ہمیں سزائے موت کاحکم سنادیاگیا ہے ۔ اللہ  نے ہمیں بہت بڑی خوشی کا موقع دیا ہے۔ حضرت شیخ الہند بھی پھانسی کی سزا کا حکم پانے والوں میں سے تھے تو حضرت یہ سن کر رونے لگے۔ سارے ساتھی حیران کہ یہ تو خوشی کا موقع ہے کہ اللہ Jنے جان قبول کرلی اور اللہ  کی راہ میں یہ جان جارہی ہے ، تو پھران حضرات نے حضرت شیخ الہند سے پوچھا کہ حضرت یہ کون سا رونے کا مقام ہے؟ یہ تو خوشی کی بات ہے، تو حضرت نے یہ فرمایا :کہ میاں! بات دراصل یہ ہے کہ اللہ  کبھی جان بھی لے لیا کرتے ہیں اور قبول بھی نہیں فرماتے یعنی اللہ J ہماری جان بھی لے لیں اور قبول بھی نہ فرمائیں تو کیا بنے گا؟

تو معلوم ہواکہ جان دینا اصل کمال نہیں، اصل کمال تو یہ ہے کہ اللہ  کے ہاں قبول ہوجائے۔

میرے دوستو! یہ ہماری ساری عبادتیں واقعی لائق مدح ہیں اگر اللہ کے ہاں قبول ہوجائیں لیکن اگر ہماری یہ عبادتیں ہمارے منہ پر دے ماری جائیں اور اللہ جل شانہ قبول نہ فرمائے تو میرے دوستو دنیا بھی برباد، آخرت بھی برباد۔ اس لیے اللہ ہماری عبادتوں کو قبول فرمالیں تو اس سے بڑا کوئی احسان نہیں۔ ہماری عبادتیں اللہ کے شایانِ شان ہو ہی نہیں سکتی۔ اللہ جل شانہ کی شان بہت بڑی ہے۔ ان کے لیے ہمارا یہ تھوڑا کھڑا ہونا اور قرآن کی تلاوت کرنا، سننا ، یہ میرے دوستو کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ ان کے ہاں تو معاملہ ایسا چلتا ہے کہ جب قبول فرمانے پرآتے ہیں تو ایسے بھی قبول فرمالیتے ہیں۔

مکھی مغفرت کا ذریعہ بن گئی:

ایک اللہ والے کا قصہ ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے قلم لکھنے کے لیے چلایا تو اتنے میں ایک مکھی قلم کی نوک پر آکر بیٹھ گئی تو انہوں نے قلم روک لیا کہ یہ مکھی پیا سی ہے، یہ سیاہی پیے گی تو اس کی پیاس بجھ جائے گی ۔ ان کے انتقال کے بعد کسی نے خواب میں دیکھا تو پوچھا کہ اللہ جل شانہ نے کیا معاملہ فرمایا، تو فرمانے لگے کہ ساری عبادتیں ایک طرف ہیں۔ اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ تو نے ایک دن قلم روک کر میری مخلوق کی پیاس بجھائی تھی۔ یہ عمل ہمیں اتنا پسند آیا کہ ہم نے تجھے معاف کردیا۔ جب اللہ جل شانہ معاف کرنے پر آتے ہیں تو ایسے بھی معاف فرمادیتے ہیں۔

اس لیے میرے دوستو! اللہ جل شانہ کے ہاں ہمارے بڑے بڑے عمل بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور اگر ایک عمل بھی ہمارا اللہ کے ہاں اخلاص والا ہوجائے جو اللہ  کے لیے ہو تو ان شاء اللہ بیڑاپار ہے ورنہ اللہ کے غضب سے ڈرتے رہنا چاہئیے اس کی پکڑ سے ڈرتے رہنا چاہئیے۔ اللہ ہمیں اپنے غضب سے محفوظ فرمائے، اللہ اپنا فضل فرمائے، ہماری عبادتوں کو قبول فرمائے۔

(آمین)

 

اپنا تبصرہ بھیجیں