کونڈوں کی رسم کاحکم

سوال : “حضرت مفتی رشید احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کونڈوں کی مروجہ رسم دشمنان صحابہ رضی اللہ عنھم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر اظہار مسرت کے لیے ایجاد کی ہے․․․․․․․مسلمانوں پر لازم ہے کہ ہرگز ایسی رسم نہ کریں، دوسروں کو بھی اس کی حقیقت سے آگاہ کر کے اس سے بچانے کی کوشش کریں”۔

(احسن الفتاوی:1/368)

1۔ اس بارے میں تفصیل سے بتادیں کیا یہ صحیح ہے؟ اور مزید تفصیل بھی بتادیجیے۔

2۔ اس بارے میں تفصیل بتادیں، کچھ لوگوں کو اس پہ اعتراض ہے تو ان کو کیسے واضح کریں؟ پلیز حوالے کے ساتھ بتادیں۔

جواب : 1۔ مذکورہ بات درست ہے۔

بدعات میں سے ایک قبیح بدعت 22 رجب کے کونڈوں کی رسم ہے۔ یہ بغضِ صحابہ اور تو ہینِ صحابہ پر مبنی رسم دشمنان صحابہ کی ایجاد کردہ ہے۔ اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ 22 رجب کی شب کو عورتیں با وضو ہو کر خاص طریقہ کے مطابق پوریاں بنا کر مٹی کے کورے کونڈوں میں بھر کے چوکی یا صاف چادر پر رکھ کر ایک منظوم کتاب پڑھواتی ہیں، اس رسم کی ابتداء سنہ 1906ء میں ریاست رام پور (یوپی) سے ہوئی۔

کونڈوں کی من گھڑت کہانی: 

رجب کے کونڈوں کو ثابت کرنے کے لیے ایک جھوٹی کہانی کا سہارا لیا جاتا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مدینے میں ایک غریب لکڑہارے کی بیوی نے امام جعفر صادق رحمہ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جو 22 رجب کو میرے نام کے کونڈے بھرے گا پھر اللہ سے جو بھی دعا کرے گا وہ قبول ہوگی ورنہ قیامت کے دن وہ میرا گریبان پکڑلے۔ چنانچہ اس لکڑہارے کی بیوی نے ایسا ہی کیا۔ اس کا شوہر بہت سا مال لے کر واپس لوٹا اور ایک شاندار محل تعمیر کر کے رہنے لگا، اور وزیر کی بیوی نے کونڈوں کو نہ مانا تو اس کے شوہر کی وزارت ختم ہوگئی۔ پھر اس نے توبہ کی اور کونڈے بھرے تو دوبارہ وزیر بن گیا۔اس کے بعد بادشاہ اور قوم ہر سال دھوم دھام سے یہ رسم منانے لگے۔

یہ ایک قبیح بدعت ورسم ہے جو دشمنان صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایجادکردہ ہے، اس کی ایجاد صرف اور صرف بغضِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے اظہار کے لیے ہے ۔اس کا دین ِاسلام اور شریعتِ محمدیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“رجب کے کونڈوں کی کوئی حیثیت نہیں، یہ گھڑی ہوئی باتیں ہیں، ان کو ترک کر دینا چاہئے…ان کو شرعی سمجھ کر پکانا، بنانا،کھانا بدعت ہے”۔

(کفایت المفتی:2/283،ادارہ الفاروق کراچی)

حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

”کونڈوں کی مروجہ رسم محض بے اصل، خلافِ شرع اور بدعت ہے۔ 22 رجب نہ حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کی تاریخِ ولادت ہے اور نہ ہی تاریخِ وفات ،اس کا حضرت جعفرصادق رحمہ اللہ کے ساتھ کیا تعلق؟ 22رجب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی تاریخ ِ وفات ہے۔ اس رسم کو محض پردہ پوشی کے لیے حضرت جعفرصادق رحمہ اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ درحقیقت یہ رسم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خوشی میں منائی جاتی ہے۔ جس وقت یہ رسم بجا لائی گئی اس وقت اہل سنت کا غلبہ تھا ( اس لیے خفیہ منائی گئی)، لہٰذا برادران اہل سنت کو اس رسم سے بہت دور رہنا چاہئے، نہ خود اس رسم کو بجا لائیں اور نہ ہی اس میں شرکت کریں”۔

(فتاوی محمودیہ: 1/220، ادارہ الفاروق کراچی)

حضرت مولاناخیرمحمد جالندھری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 

“اس رسم میں ہرگز شرکت نہیں کرنی چاہئے،بلکہ حتی الوسع اسے مٹانے کی کوشش کرنی چاہئے،اس دن نیک مقصد کے تحت خیرات کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی، کیونکہ اس میں تشبہ بالروافض ہے، نیز ان کے مکروہ ترین عمل کو تقویت دیناہے، اس عمل کی بنیادی غرض ہی صحابی رسول کی توہین اور مسلمانوں کے جذبات کومجروح کرنا ہے”۔

( خیر الفتاوی: 1/572)

2۔ جن لوگوں کو اعتراض ہے ان کو مناسب انداز میں سمجھائیں اور یہ بتائیں کہ یہ رسم محض بدعت ہے اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس سے اجتناب نہایت ضروری ہے۔

بہت سے لوگ دین سے نا واقفیت کی وجہ سے اس رسم پر عمل کرتے ہیں ان کے دل میں کوئی بغض اور عناد نہیں ہوتا اس لیے ان کو رفتہ رفتہ شفقت اور محبت سے سمجھانا ضروری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں