مرنے والے کی نمازاور روزہ کا فدیہ

سوال : السلام علیکم
ایک خاتون جن کا رات کو انتقال ہوگیا ۔انکے 8 روزے قضاء اور ایک ماہ سے بیمار تھے ۔ تو نماز اور روزہ کا فدیہ بتادیں۔
تنقیح۔مرحومہ نے وصیت کی تھی؟
جواب۔نہیں مگر وہ باربار کہتی تھیں کہ میرے روزے رہ گئے میرےروزے رہ گئے۔

الجواب باسم ملھم الصواب

1. اگر مرحومہ نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہوتی تو ترکہ کے ایک تہائی مال میں سے فدیہ ادا کرنا وارثین کے ذمہ لازم ہوتا لیکن جب مرحومہ نے وصیت نہیں کی تو اب وارثین کے ذمہ فدیہ ادا کرنا لازم نہیں ہے۔

2.البتہ جو وارث اپنی خوشی سے اپنے حصہ میں سے کل یا بعض فدیہ کی رقم ادا کردے تو بہت اچھا ہے سب مل کر ادا کردیں یا بعض ورثاء ادا کردیں دونوں شکل جائز ہے لیکن کسی وارث پر زور اور دباوٴ نہیں ڈالا جاسکتا۔

3.آٹھ روزے کے فدیے آٹھ صدقہ فطر کے بقدر غلہ یا رقم ہوئی۔

4 روزانہ (وتر شامل کرکے) چھ نمازوں کے حساب سے مہینہ بھر کی نمازوں کی تعداد جوڑ لیں پھر ہر نماز کے بدلہ ایک صدقہ فطر کے بقدر رقم یا غلہ ہوتا ہے ۔

5.ایک نماز اور ایک روزہ کا فدیہ صدقة الفطر کی مقدار (1.633/ گرام) گیہوں یا اس کی قیمت ہے۔ سب کا حساب نکال لیں۔

================
حوالہ جات :

1. ولومات وعلیہ صلوات فأتة وأوصی بالکفارة یعطی لکل صلاة نصف صاع من بر کالفطرة وکذا حکم الوتر والصوم الخ (در مختار مع الشامی: ج 2 , ص 532 )

2.”إذا مات الرجل وعليه صلوات فائتة فأوصى بأن تعطى كفارة صلواته يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر وللوتر نصف صاع ولصوم يوم نصف صاع من ثلث ماله”. (فتاوى عالمگیری ،ص/ 125, قضاء الفوائت)

3.”وعليه الوصية بما قدر عليه وبقي بذمته فيخرج عنه وليه من ثلث ما ترك لصوم كل يوم ولصلاة كل وقت حتى الوتر نصف صاع من بر أو قيمته وإن لم يوص وتبرع عنه وليه جاز ولا يصح أن يصوم ولا أن يصلي عنه”.(مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ,ص: 169، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض، فصل فی اسقاط الصلاۃ والصوم)

4.ولومات وعلیہ صلوات فأتة وأوصی بالکفارة یعطی لکل صلاة نصف صاع من بر کالفطرة وکذا حکم الوتر والصوم الخ ..( درمختار ج-2,ص-532)

واللہ اعلم بالصواب۔

26 رجب 1444
17 فرورى 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں