مساجد میں مٹی کا تیل جلانا

سوال: مٹی کا تیل مسجد میں جلانے کا کیا حکم ہے؟

جواب: واضح رہے کہ مساجد پاکیزہ جگہیں ہیں،اس میں فرشتے بھی ہوتے ہیں اور فرشتوں کو بدبودار چیز سے تکلیف پہنچتی ہے،اس لیے ہر قسم کی بدبودار چیز کا مسجد میں لانا مکروہ ہے۔مٹی کے تیل میں بھی چونکہ بدبو ہوتی ہے، لہذا مٹی کا تیل بھی بدبو کی وجہ سے مسجد میں جلانا مکروہ ہوگا۔

چنانچہ فتاوی رشیدیہ:575 میں مفتی رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں:

” مٹی کا تیل مسجد میں جلانا مکروہِ تحریمی ہے؛ کیونکہ اس میں بدبو ہوتی ہے اور ہر بدبودار شے کا مسجد میں داخل کرنا ممنوع ہے۔”

____________

حوالہ جات:

1…”نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أكل البصل و الكراث فغلبتنا الحاجة فاكلنا منها فقال من أكل من هذه الشجرة المنتنة فلا يقربن مسجدنا فان الملاىٔكة تأذى مما يتأذى منه الانس.”

(صحيح مسلم:209/2)

ترجمہ:”رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے پیاز اور لہسن کھانے سے منع فرمایا،ہمیں شدید حاجت پیش آئی تو ہم نے ان میں سے کھا لیا تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ جو شخص بدبودار درخت(یعنی پیاز) کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے اس لیے کہ فرشتوں کو بھی ان تمام چیزوں سے ایذاء پہنچتی ہے جن سے انسانوں کو ایذاء ہوتی ہے”.

2…(واكل نحو ثوم) أي:كبصل ونحوه مما له رائحة كريهة ،للحديث الصحيح فى النهي عن قربان آكل الثوم والبصل المسجد،قال الأمام العيني فى شرحه على صحيح البخاري: قلت:علة النهي اذى الملاىٔكة وأذى المسلمين،ولا يختص بمسجده عليه الصلاة والسلام،بل الكل سواء لرواية “مساجدنا” بالجمع ،خلافا لمن شذ ويلحق بما نص عليه فى الحديث كل ما له رائحة كريهة ماكولا أو غيره،وانما خص الثوم هنا بالذكر،وفي غيره أيضاً بالبصل والكراث لكثرة اكلهم لها.

(الفتاوي الشامية:526/2)

واللہ اعلم بالصواب

8 جمادی الثانی 1443ھ

12 جنوری 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں