مصنوعی آلۂ تنفس (Ventilator machine) کے ذریعے سانس بحال رکھنے کا حکم

سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

وینٹیلیٹر پر مریض کو رکھنا درست ہے جبکہ اپنی سانسیں ہو ہی نہیں ؟ بس مشین کے ذریعے ہی سانس چل رہی ہو۔

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!

بنیادی طور پر مصنوعی آلۂ تنفس(ventilator machine) کا کام عموماً یہ ہوتا ہے کہ مریض کو سانس کی آمدورفت میں جو ناقابل برداشت تکلیف پیش آرہی ہے اس سے بچایا جائے ، گویا یہ مشین سانس کی آمد و رفت میں ایک مددگار کے طور پر کام کرتی ہے ،باقی یہ مشین اللہ کی طرف سے طے شدہ سانسوں کو گھٹا بڑھا نہیں سکتی ۔

چنانچہ اگر مریض کی زندگی سے مایوسی ہوچکی ہو ،لیکن چند دن اس مشین کے ذریعے سانس کی آمدو رفت بحال رکھنا ممکن ہو تو یہ عمل شرعاً جائز ہوگا ۔ورثاء اگر اس طریقۂ علاج کا خرچہ برداشت کرسکتے ہیں تو اس طریقے کو اختیار کرنا چاہیے ،لیکن اگر اتنی وسعت نہ ہو تو یہ طریقہ اختیار کرنا ان پر واجب نہیں ہے ،نہ ہی اختیار نہ کرنے کی صورت میں اللہ کے ہاں پکڑ کا باعث ہوگا۔

یہ بھی واضح رہے کہ اگر مریض کی موت واقع ہوچکی ہے، لیکن ڈاکٹرز نے آلہ تنفس کو محض پیسے کمانے کے لیے لگا رکھا ہے تو یہ دھوکا کے زمرے میں آئے گا۔جو جو ڈاکٹرز اس میں ملوث ہوں گے سب گناہ گار ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) أما التطبیب مزاولۃ فالأصل فیہ الإباحۃ، وقد یصیر مندوبًا إذا اقترن بنیۃ التأسي بالنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في توجیہہ لتطبیب الناس، أو نوی نفع المسلمین لدخولہ في مثل قولہ تعالی: {وَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَا اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا} وحدیث: ’’من استطاع منکم أن ینفع أخاہ فلینفع‘‘۔ (صحیح مسلم) إلا إذا تعین شخص لعدم وجودہ غیرہ، أو تعاقد فتکون مزاولتہ واجبًا۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ ۱۲؍۱۳۵)

(۲) مرض أو رمد فلم یعالج حتی مات لا یأثم، کذا في الملتقط۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۵؍۳۵۵ کوئٹہ)

(۳) وقد ذہب جمہور العلماء أي الحنفیۃ والمالکیۃ إلی أن التداوي مباح۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ ۱۱؍۱۱۷)

(۴) ولو أن رجلاً ظہر بہ داء، فقال لہ الطبیب: قد غلب علیک الدم فأخرجہ فلم یفعل حتی مات لا یکون آثمًا؛ لأنہ لم یتیقن أنہ شفاء فیہ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الثامن عشر ۵؍۳۵۵)

فقط واللہ اعلم بالصواب

۲/نومبر/۲۰۲۱

۲۷/ربیع الاول/۱۴۴۳ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں