میت کے زیر استعمال اشیاء کا حکم

سوال:جو انسان انتقال کرجائے اس کے زیر استعمال چیزوں کا کیا کرنا چاہیے؟ کیا ایصال ثواب کے لیے کسی مسجد کے امام کو ان کے کپڑے، جوتے، تسبیح دینا صحیح ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب

واضح رہے کہ انتقال کے وقت میت کی ملکیت میں جو چیزیں بھی ہوتی ہیں وہ سب اس کے ترکہ میں شامل ہیں، جو ورثاء میں ان شرعی حصوں کے اعتبار سے تقسیم ہو ں گی،تقسیم سے پہلے کسی ایک وارث کا سب کا حصہ کسی مسجد کے امام کو دینا جائز نہیں، البتہ اگر تمام ورثاء عاقل بالغ ہوں اور باہمی رضامندی سے مستحقین میں صدقہ کرنا چاہیں تو یہ جائز ہے، لیکن اگر ورثاء میں نابالغ بچے بھی ہوں تو پھر صدقہ کرنا جائز نہیں ہوگا۔

چنانچہ میت کے احکام سے متعلق کتاب “احکام میت” میں ہے:

“ایک رسم یہ بھی ہے کہ میت کے انتقال کے بعد اس کے کپڑے اور جوڑے خاص کر استعمالی کپڑے خیرات کردیتے ہیں، حالانکہ ورثاء میں اکثر نابالغ ورثاء بھی ہوتے ہیں، یاد رکھیے! میت کے تمام کپڑے اور ہر چھوٹی بڑی چیز اس کا ترکہ ہے، جس کو شرع کے مطابق تقسیم کرنا واجب ہے، اس سے پہلے کوئی چیز خیرات نہ کی جائے، البتہ اگر سب وارث بالغ ہوں اور وہاں موجود ہوں اور خوشدلی سے سب متفق ہوکر دے دیں، تو یہ خیرات کرنا جائز ہے، لیکن اسے واجب یا ضروری سمجھنا پھر بھی بدعت ہے”

(احکام میت: 387)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

1. ” إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا”.

(سورة النساء:10)

ترجمہ:

” بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آگ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے”۔

2. “المراد من التركة: ما تركه الميت خاليا عن تعلق حق الغير بعينه ، وإن كان حق الغير متعلقا به”.

(البحر الرائق: 558)

3. “لأن تركة الميت من الأموال صافياً عن تعلق حق الغير بعين من الأموال، كما في شروح السراجية”.

(فتاوى شامية، كتاب الفرائض: 6/759)

4. “کما أن أعیان المتوفی المتروکة عنه مشترکة بین الورثة علی حسب حصصهم”.

(شرح المجلة لسلیم رستم باز، کتاب الشرکة / الفصل الثالث: 610/1)

5. “لا یجوز التصرف في مال غیرہ بلا إذنه”.

(الدر المختار مع الشامي: 291/9)

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

8 صفر 1442 ھ

16 ستمبر 2021ء

اپنا تبصرہ بھیجیں