مفتی تقی عثمانی صاحب کے خیالات

مفتی تقی عثمانی صاحب

افادات

  • ہم فضلا کا اجتماع اس لیے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ اس میں سب آئیں اوراپنے اپنے کوائف ہمیں جمع کروائیں تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ ہمارے فضلاء کہاں کہاں ہیں اورکیا کیا کوائف ہیں اورکیا کام کررہے ہیں تاکہ مشاورت کے ساتھ ساتھ بوقت ضرورت ان کی بہتر جگہ تشکیل ہوسکےاوراس ربط کے لیے دارالعلوم میں مستقل شعبہ قائم کیا جارہا ہے،لیکن ہمارے سرسری انداز میں 12000 سے زائد فضلاہیں اب مسئلہ یہ ہےکہ ان کو اکٹھا جمع کیا جائےیاکسی اور ترتیب سے جمع کیا جائےاس کے لیے مشاورت جاری ہے۔عنقریب ہم البلاغ اور روزنامہ اسلام میں اس حوالے سے اشتہار بھی دیں گے۔
  • عملی کام میں اپنوں اور غیروں کی طرف سے پیش آمدہ مشکلات سے متعلق حضرت نے فرمایاکہ مثبت کام کرتے رہیں اوراپنے ہوں یا غیر الجھاو و تنازعہ سے بچیں۔مثبت کام میں اللہ نے بہت برکت رکھی ہے۔مثبت کام کے ساتھ لازما اللہ پاک کی مدد ہوتی ہے۔مثبت کام اگر آپ کررہے ہوں گےتو اپنے ہوں یا غیرکوئی بھی ہو وہ اپنی سازشوں میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔
  • یونیورسٹی سے متعلق بات ہوئی وہاں جاکر مجھ جیسے کمزور فضلااسی ماحول میں ڈھل جاتے ہیں

تو میں نے عرض کیا کہ اس میں کوئی ایسی تنظیم بنالی جائےجوفضلا کی تربیت اور ان کی شناخت اور رسوخ سے نظریاتی کام پر توجہ مرکوز کرے اورگاہے بگاہے پیار محبت اور مودت قلب سے ایسے اقدامات پر توجہ دےکہ مدارس کے فضلا کسی بھی قسم کی احساس کمتری اوربے دینی کے ماحول سے بچتے ہوئے عصری ہتھیاروں سے لیس ہوجائیں اورنظریاتی سوچ کے ساتھ کام پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے ایسے اداروں میں اپنی جڑیں مضبوط کریں تو حضرت نے فرمایاکہ اس چیز کی بہت ضرورت ہے۔اوراگر یونیورسٹی میں ایسی کسی تنظیم کی داغ بیل ڈالی جائے ۔جو اصلاح و تربیت اور نظریاتی کام پر توجہ مرکوز رکھے تو بہت مفید رہے گا۔

  • یعنی مقابلے کے امتحان سے متعلق ایک سوال پر حضرت نے فرمایاکہ

اس چیز کی بہت ضرورت ھےکہہمارے طلباء  Css کرکے سرکاری اداروں کا حصہ بنیںاوروہاں دین کے کام کے از حد مواقع میسر ہیںاس کیلئےہمارے طلباء کو انفرادی و اجتماعی کوششیں کرنی چاہئیں

جبکہ Cssمدارس کے فضلاء کیلئے بہت آسان ھےکہاس میں 1200 میں.سے 600 نمبر ضروری ہوتے ہیںاوراسلام مضامین اور عربی کے نمبر بھی ملائیں تو 500 سے اوپر نمبر بن.جاتے ہیں

تو یہ چنداں مشکل نہیںاوراہل تشیع کے پلاننگ سے css کے ذریعے سرکاری اداروں میں گھسنے سے متعلق ایک.سوال کے جواب میںاس نازک صورتحال کواہل السنہ کیلئے لمحہ فکریہ قرار دیا

اوراس ضرورت پر بہت زور دیاکہجس قسم کی صلاحیت اور تعلیم ھےاس سے متعلقہ سرکاری ادارے کا حصہ بنا جائےبھلے ہی وہ جوڈیشری ہو یا سول سروسز ہو یا کوئی بھی محکمہ

ایک سوال یہکیا کہہم بعض اوقات ایک مکتب یا ادارہ بناتے ہیںاوراس کا نام مدرسے کی طرح رکھتے ہیںاورانتظامیہ اور لوگوں کی نظروں میں آجاتے ہیںتو کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ہم اس کا نام

 مرکز اقتصادیات یا کوئی بھی ایسا نام رکھ لیںجو دنیاوی اور معاشرتی اعتبار سے آسان بھی ہواورکام کیلئے مفید بھییعنیاس مین نصاب اور کام اپنی مرضی کا رکھیںتو حضرت نے فرمایاکہ یہ تو بہت بہتر ھےمقصد یہ تھا

کہمقصود کام ہونا چاہئیےوہ کسی بھی جدید شکل میں ہواورنظروں میں آئے بغیر دینی کام کیا جائے تو بہت ہی نافع ہوگایہ چند چیزیں ذہن میں تھیںجو تحریر کردی ہیںاللہ پاک حضرت شیخ کی زندگی , صحت , عمر و علم و عمل میں برکات و ترقیات و عافیات نصیب فرمائیںاور ہم سب سے عافیت کے ساتھ اپنی مرضیات کے مطابق دین کا کام لے لیں

آمین

العبد الضعیف

محمد طیب سکھیرا پاکپتنی

اپنا تبصرہ بھیجیں