منکرات والی شادی میں شرکت کا حکم

سوال : بھائی کے نکاح کی تقریب لڑکی والوں کے گھر میں ہے ۔ جس میں مردو عورتوں کا الگ انتظام ہے ۔نکاح کے بعد لڑکی کی پھوپھی ،ممانی ، سالی ، کزنز اور دیگر نامحرم عورتیں بھاٸی کو مٹھاٸی کھلاٸیں گی اور سلامی وغیرہ دیں گی ۔ اب شرعا اس تقریب میں جانا درست ہے ؟ براٸے مہربانی تین دن میں جواب دے دیں ۔ اگلے ہفتے تقریب ہے ۔

الجواب باسم ملھم الصواب
جس تقریب میں کوئی بھی خلاف شرع کام ہو اس میں شرکت درست نہیں، البتہ اگر اپنے گھر کی شادی ہے تو آپ اپنے طور پر پوری کوشش کریں کہ غلط رسومات نہ ہوں، حکمت، نرمی سے گھر والوں کو سمجھائیں کہ بے پردگی اور نامحرم سے اختلاط ناجائز اور گناہ ہیں۔
اگر کوئی نہ مانے اور عمل نہ کرے لیکن دعوت کے آخر تک پردے کا انتظام ہو اور مرد عورتوں کی طرف نہ آتے ہوں، تو آپ خواتین والے حصے میں پردے کے اہتمام کے ساتھ شریک ہوسکتی ہیں ۔
جوخواتین مردوں میں جائیں گے وہ خود گنہگار ہوں گی۔

===========
حوالہ جات :
1 ۔ ھذا اذا لم یکن مقتدی،فان کان ولم یقدر علی منعھم یخرج ولا یقعد لأن فی ذلک شین الدین وفتح باب المعصیة علی المسلمین “۔
(الھدایہ: کتاب الکراھیہ، 455/4 ،مکتبہ شرکت علمیہ)۔

2 ۔ ” مَنْ دُعِيَ إلَى وَلِيمَةٍ فَوَجَدَ ثَمَّةَ لَعِبًا أَوْ غِنَاءً فَلَا بَأْسَ أَنْ يَقْعُدَ وَيَأْكُلَ، فَإِنْ قَدَرَ عَلَى الْمَنْعِ يَمْنَعُهُمْ، وَإِنْ لَمْ يَقْدِرْ يَصْبِرْ وَهَذَا إذَا لَمْ يَكُنْ مُقْتَدَى بِهِ أَمَّا إذَا كَانَ، وَلَمْ يَقْدِرْ عَلَى مَنْعِهِمْ، فَإِنَّهُ يَخْرُجُ، وَلَا يَقْعُدُ، وَلَوْ كَانَ ذَلِكَ عَلَى الْمَائِدَةِ لَا يَنْبَغِي أَنْ يَقْعُدَ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ مُقْتَدًى بِهِ وَهَذَا كُلُّهُ بَعْدَ الْحُضُورِ، وَأَمَّا إذَا عَلِمَ قَبْلَ الْحُضُورِ فَلَا يَحْضُرُ؛ لِأَنَّهُ لَا يَلْزَمُهُ حَقُّ الدَّعْوَةِ بِخِلَافِ مَا إذَا هَجَمَ عَلَيْهِ؛ لِأَنَّهُ قَدْ لَزِمَهُ، كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ وَإِنْ عَلِمَ الْمُقْتَدَى بِهِ بِذَلِكَ قَبْلَ الدُّخُولِ، وَهُوَ مُحْتَرَمٌ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَوْ دَخَلَ يَتْرُكُونَ ذَلِكَ فَعَلَيْهِ أَنْ يَدْخُلَ وَإِلَّا لَمْ يَدْخُلْ، كَذَا فِي التُّمُرْتَاشِيِّ”.
(الفتاوی الھندیہ: كتاب الكراهية، الْبَابُ الثَّانِي عَشَرَ فِي الْهَدَايَا وَالضِّيَافَاتِ“ ۔ 443/5) ۔

3 ۔ “رجل دعي إلى وليمة أو طعام وهناك لعب أو غناء جملة الكلام فيه أن هذا في الأصل لا يخلو من أحد وجهين: إما أن يكون عالماً أن هناك ذاك، وإما إن لم يكن عالماً به، فإن كان عالماً فإن كان من غالب رأيه أنه يمكنه التغيير يجيب؛ لأن إجابة الدعوى مسنونة قال النبي عليه الصلاة والسلام : «إذا دعي أحدكم إلى وليمة فليأتها». وتغيير المنكر مفروض فكان في الإجابة إقامة الفرض ومراعاة السنة، وإن كان في غالب رأيه أنه لا يمكنه التغيير لا بأس بالإجابة؛ لما ذكرنا أن إجابة الدعوة مسنونة ولاتترك السنة لمعصية توجد من الغير۔۔۔وقيل: هذا إذا كان المدعو إماماً يقتدى به بحيث يحترم ويحتشم منه، فإن لم يكن فترك الإجابة والقعود عنها أولى، وإن لم يكن عالماً حتى ذهب فوجد هناك لعباً أو غناءً فإن أمكنه التغيير غيّر، وإن لم يمكنه ذكر في الكتاب، وقال: لا بأس بأن يقعد ويأكل”
(بدائع الصنائع : 128/5)۔
4 ۔ “کوئی شخص اگر مقتدی ہے تو اس کو ایسی دعوت سے احتراز کرنا چاہیے، اگر عامی ہے تو گنجائش ہے،لیکن اگر یہ خیال ہو کہ اس کی شرکت کے لیے وہ لوگ فسق وفجور ترک کر دیں گے توادے جانے کا اہتمام کرنا چاہیے ” ۔
(فتاوی محمودیہ: 18/130)۔

فقط واللہ اعلم۔
یکم شعبان 1444
22 فروری 2023۔

اپنا تبصرہ بھیجیں