میت کو زندہ لوگوں کے رونے سے عذاب ہونا

سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میت کو زندہ کے رونے سے عذاب دیا جاتا ہے“۔
(صحیح مسلم: 930، 2152)

السلام علیکم!
کیا یہ حدیث درست ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب
وعلیکم السلام!

مذکورہ روایت درست ہے، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص اپنی زندگی میں لوگوں کو وصیت کرتا ہو کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی میت پر نوحہ کریں اور خوب روئیں، ایسے آدمی کو اس کی وصیت کرنے کی وجہ سے قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ اگر کسی نے ورثہ کو نوحہ کرنے کی وصیت نہ کی ہو، بلکہ وہ خود اسے ناپسند کرتا ہو تو ورثہ کے رونے یا نوحہ کرنے کی سزا اسے نہیں ملے گی۔
دلائل: 1۔ ”عن عبد الله بن عمر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إنّ الميت ليعذب ببكاء أهله عليه“۔
(أخرجه البخاري: 1286، ومسلم: 928)
ترجمہ: ”نبى كريم صلى اللہ عليہ نے فرمايا ہے: ميت کو اس كے اہل وعيال كے رونے كى بنا پر عذاب ہوتا ہے“۔

2۔ ”السابع أنه فيمن أوصى به أهله وهو أخص من الذي قبله، وهذا قول الجمهور، كما قال النووي، قالوا: كان ذلك معروفاً من العرب، فإنهم كانوا يوصون أهليهم بالبكاء والنوح عليهم، وهو موجود في أشعارهم، كقول طرفة بن العبد:إذا مت فابكيني بما أنا أهله۔۔۔ وشق علي الجيب يا ابنة معبد
ومثل هذا كثير في أشعارهم، وإذا كان كذلك فالميت إنما تلزمه العقوبة بما تقدم في ذلك من أمره إياهم بذلك وقت حياته۔“
(مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: 5/ 483)

فقط۔واللہ تعالی اعلم بالصواب

14 رجب المرجب 1444ھ
6 فروری 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں