نیک صفات اور ان کے حصول کے طریقے:پہلی قسط

نیک صفات اور ان کے حصول کے طریقے:پہلی قسط

توبہ اور اس کا طریقہ

تو بہ سے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں،جو شخص اپنی حالت میں غور کرے ، اسے محسوس ہو گا کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی گناہ ہو ہی جاتا ہے، اس لیے ہر شخص کو توبہ کا اہتمام کرنا چاہیے۔

اس کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن اور حدیث میں گناہوں پر جو وعیدیں آئی ہیں، ان کو یاد کرے اور انجام کو سوچے، اس سے گناہ ہونے پر دل دکھے گا۔ لہذا زبان سے بھی توبہ کرے اور جو نماز،روزہ وغیرہ فوت ہوئے ہو،ان کی قضا کرے۔ اگر بندوں کے حقوق ضائع ہوئے ہوں تو ان سے معاف کرائے،اور جو مالی حقوق ہیں ان کو ادا کرے، اور جو ان کے علاوہ گناہ ہوئے ہو اُن پر خوب کڑھے اور رونے کی شکل بنا کر اللہ تعالیٰ سے خوب معافی مانگے۔

خوفِ خدا اور اس کا طریقہ

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم فرمایا ہے کہ مجھ سے ڈرو۔خوفِ خدا ایسی چیز ہے کہ آدمی اس کی بدولت گناہوں سے بچتا ہے۔

اس کا طریقہ وہی ہے جو توبہ کا طریقہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو سوچا کرے، جس سے اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے امید رکھنا اور اس کا طریقہ

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم حق تعالیٰ کی رحمت سے ناامید مت ہو ۔ امید ایسی چیز ہے، جس سے نیک کام کرنے اور توبہ کرنے کی ہمت بڑھتی ہے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو یاد کرے اور سوچا کرے۔

صبر اور اس کا طریقہ

نفس کو دین کی باتوں کا پابند رکھنا اور دین کے خلاف اس سے کوئی کام نہ ہونے دینا، اس کو صبر کہتے ہیں اور اس کے کئی مواقع ہیں۔

1- آدمی امن و سلامتی کی حالت میں ہو،اللہ تعالیٰ نے صحت دی ہو،مال و دولت عزت، آل اولاد، گھر بار، سازو سامان دیا ہو، ایسے وقت کا صبر یہ ہے کہ آدمی مال و دولت کی وجہ سے بگڑ نہ جائے، اللہ تعالیٰ کو بھول نہ جائے،غریبوں کو حقیر نہ سمجھے، ان کے ساتھ نرمی اور حسن سلوک کرتا رہے۔

2-عبادت کا وقت ہے کہ اس وقت نفس سستی یا کنجوسی کرتا ہے، جیسے: نماز کے لیے اٹھنے یا زکوٰۃ خیرات دینے میں۔ ایسے موقع پر تین طرح کا صبر درکار ہے۔

نمبر 1- عبادت سے پہلے نیت درست رکھے۔ اللہ تعالیٰ ہی کے واسطے وہ کام کرے، نفس کی کوئی غرض نہ ہو۔

نمبر 2-عبادت کے وقت کم ہمتی نہ ہو۔ جس طرح اس عبادت کا حق ہے، اسی طرح ادا کرے۔

نمبر 3- عبادت کے بعد کسی کے سامنے اس کا ذکر نہ کرے۔

3-گناہ کا وقت ہے۔ اس وقت کا صبر یہ ہے کہ نفس کو گناہ سے روکے۔

4- جب کوئی تکلیف پہنچائے، برا بھلا کہے۔ اس وقت کا صبر یہ ہے کہ بدلہ نہ لے، خاموش ہو جائے۔

5- مصیبت، بیماری اور مال کے نقصان یا کسی عزیز و قریب کے مرجانے کا ہے۔اس وقت کا صبر یہ ہے کہ زبان سے خلافِ شرع کوئی کلمہ نہ کہے۔ چیخ چیخ کر نہ روئے۔

صبرکے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ ان سب مواقع میں صبر کے ثواب کو یاد کرے اور یہ سوچے کہ بے صبری کرنے سے تقدیر تو ٹلتی نہیں،توپھر صبر کا ثواب کیوں ضائع کیا جائے۔

شکر اور اس کا طریقہ

اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے خوش ہو کر اس کی محبت دل میں پیدا ہونا اور اس محبت سے یہ شوق ہونا کہ جب اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی نعمتیں عطا فرماتا ہے تو اس کی خوب عبادت کی جائے اور ایسی نعمت دینے والے کی نافرمانی بڑی بے مروّتی ہے۔ یہ شکر کا خلاصہ ہے۔ ظاہر ہے کہ بندے پر ہر وقت اللہ تعالیٰ کی ہزاروں نعمتیں ہیں،اگر کوئی مصیبت بھی ہے تو اس میں بھی بندے کا فائدہ ہے اس لیے وہ بھی نعمت ہے۔ جب ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت ہی نعمت ہے توپھر ہر وقت دل میں یہ خواہش اور محبت رہنی چاہیے کہ کبھی اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لانے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ شکر کاطریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کیا کرے اور ان کو خوب سوچا کرے۔

توکل اور اس کا طریقہ

یہ ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارادے کے بغیر نہ کوئی نفع حاصل ہو سکتا ہے اورنہ نقصان پہنچ سکتا ہے، اس لیے انسان پر لازم ہے کہ کسی بھی کام میں اپنی تدبیر پر بھروسہ نہ کرے یعنی تدبیر کرے، کیونکہ تدبیر کرنا اللہ پاک کا حکم ہے، مگر اس کومستقل نہ سمجھے، بلکہ یہ یقین رکھے کہ کام کا پورا ہونا اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے، اگر وہ چاہیں گے تو تدبیر اثر کرے گی، ورنہ نہیں۔نظر اللہ تعالیٰ پر رکھے اور کسی مخلوق سے زیادہ امید نہ رکھے، نہ کسی سے ڈرے، یہ سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ کے ارادے کے بغیر کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ اس کو بھروسہ اور توکل کہتے ہیں۔اس کاطریقہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کو اور مخلوق کے محتاج ہونے کو خوب سوچے اور یاد کیا کرے۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں