نیک صفات اور ان کے حصول کے طریقے:تیسری قسط

نیک صفات اور ان کے حصول کے طریقے:تیسری قسط

نفس کے ساتھ معاملہ

پابندی کے ساتھ تھوڑا سا وقت صبح کو اور تھوڑا سا وقت شام کو یا سوتے وقت مقرر کر یں، اس وقت اکیلے بیٹھ کرجہاں تک ہو سکے دل کوسارے خیالوں سے خالی کر کے نفس سے یوں کہا کریں کہ اے نفس! خوب سمجھ لے کہ تیری مثال دنیا میں ایک تاجر کی سی ہے، پونجی تیری عمر ہے اور اس کا نفع یہ ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کی بھلائی یعنی آخرت کی نجات حاصل کرے۔ اگر یہ دولت حاصل کر لی تو تجارت میں نفع ہوا اور اگر اس عمر کو یونہی کھو دیا اور بھلائی اور نجات حاصل نہ کی تو اس تجارت میں بڑا نقصان اٹھایا کہ پونجی بھی گئی اور نفع بھی نصیب نہ ہوا۔ اور یہ پونجی ایسی قیمتی ہے کہ اس کی ایک ایک گھڑی بلکہ ایک ایک سانس بے انتہا قیمت رکھتا ہے اور کوئی خزانہ کتنا ہی بڑا ہو، اس کی برابری نہیں کر سکتا، ایک تواس لیے کہ خزانہ اگر جاتا رہے تو کوشش اور محنت سے اس کی جگہ دوسرا خزانہ حاصل کیا جا سکتا ہے اور یہ عمر جتنی گزر جاتی ہے اس کی ایک پل بھی لوٹ کر نہیں آسکتی، نہ دوسری عمر مل سکتی ہے۔

دوسرایہ کہ اس عمر سے بڑی دولت کما سکتے ہیں،یعنی ہمیشہ کے لیے جنت اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور دیدار، اتنی بڑی دولت کسی خزانہ سے کوئی نہیں کما سکتا۔اس واسطے یہ پونجی بہت ہی قیمتی ہے اور اے نفس! اللہ تعالیٰ کا احسان مان کہ ابھی تیری موت نہیں آئی، جس سے یہ عمر ختم ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آج زندگی کا ایک اور دن عطا فرمایا ہے۔ اگر تو مرنے لگے تو دل و جان سے آرزو کرے کہ مجھے ایک دن کی عمر اور مل جائے تاکہ اس ایک دن میں سارے گناہوں سے سچی اور پکی توبہ کر لوں اور اللہ تعالیٰ سے پکا وعدہ کر لوں کہ پھر ان گناہوں کے پاس نہ بھٹکوں گا اور سارا دن اللہ تعالیٰ کی یاد اور تابعداری میں گزاروں گا۔

جب مرنے کے وقت تیرا یہ حال اور یہ خیال ہوتا ہے تو اپنے دل میں تو یونہی سمجھ لے کہ گویا میری موت کا وقت قریب آیا تھا اور میرے مانگنے سے اللہ تعالیٰ نے مزید ایک دن دے دیا ہے ،اور اس دن کے بعد معلوم نہیں کہ کوئی اور دن نصیب ہو گا یا نہیں؟ لہٰذا اس دن کو تو اسی طرح گزارنا چاہیے کہ گویا یہ عمر کا آخری دن ہے یعنی سب گناہوں سے پکی توبہ کر لے اور اس دن میں کوئی چھوٹی یا بڑی نافرمانی نہ کرے اور پورا دن اللہ تعالیٰ کے دھیان اور خوف میں گزاردے اوراللہ تعالیٰ کا کوئی حکم نہ چھوڑے۔ جب وہ دن گزر جائے،پھر اگلے دن یونہی سوچے کہ شاید عمر میں سے یہی ایک دن باقی ہے۔

اور اے نفس! اس دھوکے میں نہ آنا کہ اللہ تعالیٰ معاف کر دیں گے،کیونکہ اوّل تو تجھے کیسے معلوم ہوا کہ معاف ہی کر دیں گے اور سزا نہ دیں گے، اگر سزا ہونے لگے تو اس وقت کیا کرے گا؟ اوراس وقت کتنا پچھتانا پڑے گا ،اور اگر معاف ہی کر دیا تب بھی تو نیک کام کرنے والوں کو جو انعام اور مرتبہ ملے گا وہ تجھ کو نصیب نہ ہو گا۔ پھر جب تو اپنی آنکھ سے دوسروں کو نعمتیں ملنا اوراپنا محروم ہونا دیکھے گا تو کس قدر حسرت اور افسوس ہو گا؟ اس پر اگر دل میں یہ خیال آئے کہ پھر میں کیا کروں اور کس طرح کوشش کروں تو یہ سوچیں کہ جو چیز مر کر چھوٹنے والی ہے یعنی دنیا اور بری عادتیں تو اس کو ابھی چھوڑ دینا چاہیے اور جس سے سابقہ پڑنے والا ہے اور اس کے بغیر گذارا نہیں ہو سکتا یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کو راضی کرنے کی باتیں اس کو ابھی سے اختیار کر لیا جائے، اور اس کی یاد اور تابعداری میں لگ جائے۔

اپنے نفس سے کہے کہ اے نفس! تیری مثال بیمار کی سی ہے اور بیمار کو پرہیز کرنا پڑتا ہے اور گناہ کرنا بد پرہیزی ہے، اس لیے اس سے پرہیز کرنا ضروری ہے اور یہ پرہیز اللہ تعالیٰ نے ساری عمر کے لیے بتایا ہے۔سوچ تو سہی، اگر دنیا کا کوئی ادنیٰ سا حکیم کسی سخت بیماری میں تجھے یہ بتا دے کہ فلاں مزیدار چیز کھانے سے بیماری بہت بڑھ جائے گی اور تو سخت تکلیف میں مبتلا ہو جائے گا اور فلاں کڑوی اور بد مزہ دوا روز مرہ کھاتے رہو گے تو صحت مندرہو گے اور تکلیف کم ہوجائے گی تو یقینی بات ہے کہ اس حکیم کے کہنے سے کیسی ہی مزیدار چیز ہو اس کو ساری عمر کے لیے چھوڑ دے گا اور دوا کیسی ہی بد مزہ اور ناگوار ہو، آنکھ بند کر کے روز انہ اس کو نگل جایا کرے گا۔

مانا کہ گناہ اگر چہ بظاہر بڑے مزیدار ہیں اور نیک کام نفس کو ناگوار ہیں، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ان مزیدار چیزوں کو نقصان دہ بتایا ہے اور ان ناگوار کاموں کو فائدہ مند فرمایا ہے،اور پھر نقصان اور فائدہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کاہے، جس کا نام دوزخ اور جنت ہے تو اے نفس!تعجب اور افسوس کی بات ہے کہ جان کی محبت میں ادنیٰ حکیم کے کہنے کا تو یقین کر لے اور اس کا پابند ہو جائے اور اپنے ایمان کی محبت میں اللہ تعالیٰ کے کہنے پر دل کو نہ جمائے اور گناہوں کو چھوڑنے کی ہمت نہ کرے اور نیک کاموں سے پھر بھی جی چرائے توپھر تو کیسا مسلمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کو ایک چھوٹے سے حکیم کے کہنے کے برابر بھی نہیں سمجھتا اور کیسا بے عقل ہے کہ جنت کے ہمیشہ ہمیشہ کے آرام کی دنیا کے تھوڑے دنوں کے آرام کے برابر بھی قدر نہیں کرتا اور دوزخ کی اتنی سخت اور دائمی تکلیف سے دنیا کی تھوڑے دنوں کی تکلیف کے برابر بھی بچنے کی کوشش نہیں کرتا؟

اور اے نفس! دنیا سفر کا مقام ہے اور سفر میں پورا آرام ہر گز میسر نہیں ہوا کرتا،طرح طرح کی تکالیف جھیلنی پڑتی ہیں،مگر مسافر اس لیے ان تکلیفوں کو برداشت کر لیتا ہے کہ گھر پہنچ کر آرام مل جائے گا۔ اگر ان تکلیفوں سے گھبرا کر کسی سرائے میں ٹھہر کر اس کو اپنا گھر بنا لے اور آرام و آسائش کا سارا سامان وہاں جمع کر لے تو ساری عمر بھی گھر پہنچنا نصیب نہ ہو۔ اسی طرح دنیا میں جب تک رہنا ہے تو محنت و مشقت برداشت کرنی چاہیے۔ عبادت میں محنت ہے اور گناہوں کے چھوڑنے میں مشقت ہے ،اور بھی طرح طرح کی مشکلات ہیں، لیکن آخرت ہمارا اصلی گھر ہے، وہاں پہنچ کر ساری مصیبتیں ختم ہو جائیں گی۔

غرض نفس سے ایسی ایسی باتیں کر کے اس کو صحیح راستہ پر لگانا چاہیے اور روز مرہ اسی طرح سمجھانا چاہیے اور یاد رکھو کہ اگر آدمی خود اپنی بھلائی اور درستی کی کوشش نہیں کرے گا تو اور کون اس کی خیر خواہی کرے گا؟

لوگوں کے ساتھ معاملہ

لوگ تین طرح کے ہیں:ایک تو وہ جن سے دوستی اور رشتہ داری کا تعلق ہے۔دوسرے وہ جن سے صرف جان پہچان ہے۔ تیسرے وہ جن سے جان پہچان بھی نہیں۔ہر ایک کے ساتھ برتاؤ کر نے کا طریقہ الگ ہے۔

اوّل تو ہر کسی سے دوستی اور راہ ورسم پیدا نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ ہر آدمی دوستی کے قابل نہیں ہوتا،البتہ جس میں یہ پانچ باتیں ہوں اس سے دوستی رکھنے میں کوئی حرج نہیں:

1- وہ عقلمند ہو، کیونکہ بیوقوف سے ایک تو نباہ نہیں ہوتا، اور اگر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ فائدہ پہنچانا چاہتا ہے، مگر بیوقوفی کی وجہ سے الٹا نقصان کر گزرتا ہے۔

2- اس کے اخلاق و عادات درست ہوں، اپنے مطلب کی دوستی نہ رکھے اور غصے کے وقت آپے سے باہر نہ ہو جائے۔

3- دیندار ہو،کیونکہ بے دین شخص جب اللہ تعالیٰ کا حق ادا نہیں کرتا تو تمہیں اس سے کیا امید ہے کہ اس سے وفا ہو گی؟دوسری خرابی یہ ہے کہ جب تم بار بار اس کو گناہ کرتے دیکھو گے اور دوستی کی وجہ سے نرمی کرو گے تو خود تمہیں بھی اس گناہ سے نفرت نہیں رہے گی۔ تیسری خرابی یہ ہے کہ اس کی بری صحبت کا اثر تم پر بھی پڑے گا اور تم سے بھی ویسے ہی گنا ہ ہونے لگیں گے۔

4- اس کو دنیا کی حرص نہ ہو، کیونکہ حرص والے کے پاس بیٹھنے سے دنیا کی حرص بڑھتی ہے۔ جب ہر وقت اس کو اسی دھن اور اسی چرچے میں دیکھو گے، کہیں پیسے کا ذکر ہے، کہیں عمدہ لباس کی فکر ہے، تو تمہیں بھی ضرور حرص ہو گی۔جس کو خود حرص نہ ہو، کم قیمت کپڑا پہنتا ہو، ادنیٰ درجہ کا کھانا کھاتاہو، ہر وقت دنیا کی ناپائیداری کا ذکرکرتا ہو، اس کے پاس بیٹھ کر جو کچھ تھوڑی بہت حرص ہوتی ہے، وہ بھی دل سے نکل جاتی ہے۔

5- جھوٹ بولنے کی عادت نہ ہو، کیونکہ جھوٹ بولنے والے آدمی کا کوئی اعتبار نہیں،خدا جانے اس کی کس بات کو سچا سمجھ کر آدمی دھوکے میں آجائے۔

ان پانچ باتوں کا خیال تو دوستی کا تعلق قائم کرنے سے پہلے کر لینا چاہیے، جب کسی میں یہ پانچوں باتیں دیکھ لیں اور تعلق پیدا کر لیں تو اب اس کے حقوق اچھی طرح ادا کریں۔یعنی جہاں تک ہو سکے ضرورت کے وقت اس کے کام آئیں،اگر اللہ تعالیٰ گنجائش دے تو اس کی مدد کیا کریں،اس کا کوئی راز کسی سے بیان نہ کیا جائے،جب وہ کوئی بات کرے تو توجہ سے سنی جائے۔ اگر اس میں کوئی عیب ہوتو نرمی اور خیر خواہی سے تنہائی میں سمجھائیں،اگر اس سے کوئی خطا ہو جائے تو در گزر کریں اور اس کی بھلائی کے لیے دعا کرتے رہیں۔

البتہ وہ لوگ جن سے جان پہچان نہیں ہے اگر ان کے ساتھ میل جول رکھنا پڑے تو ان باتوں کا خیال رکھا جائے کہ وہ جو ادھر ادھر کی باتیں اور خبریں بیان کریں،ان کی طرف کان نہ لگائیں ،ان سے زیادہ نہ ملے، ان سے کوئی امید اور التجا نہ کرے اور اگر ان میں کوئی بات خلافِ شرع ہو تو اگر یہ امید ہو کہ نصیحت مان لیں گے تو نرمی سے سمجھا دیا جائے۔

اور وہ لوگ جن سے صرف جان پہچان ہے،ایسے آدمیوں سے بڑی احتیاط درکار ہے،کیونکہ جو دوست ہیں وہ تمہارے فائدے میں ہیں اور جن سے جان پہچان بھی نہیں وہ اگرفائدے میں نہیں تو برائی میں بھی نہیں اور جن سے نہ دوستی ہے اور نہ بالکل نا واقف ہیں، زیادہ تکلیف ایسوں ہی سے پہنچتی ہے کہ زبان سے تو دوستی اور خیر خواہی کا دَم بھرتے ہیں اورپس ِ پردہ جڑیں کھودتے، حسد کرتے ہیں۔ ہر وقت عیب ڈھونڈا کرتے ہیں اور بد نام کرنے کی فکر میں رہتے ہیں، اس لیے جہاں تک ہو سکے کسی سے خواہ مخواہ جان پہچان پیدامت کرو۔ اُن کی دنیا کو دیکھ کر حرص مت کرو اور ان کی خاطر اپنا دین بربادمت کرو۔ اگر کوئی تم سے دشمنی بھی کرے تو تم اس سے دشمنی مت کرو، اس کی طرف سے پھر تمہارے ساتھ اور زیادہ برائی ہو گی جس کو تم برداشت نہیں کر سکو گے اور اسی دھندے میں لگ جاؤ گے، جس سے دین اور دنیا کا نقصان ہو گا، اس واسطے در گزر ہی بہتر ہے۔ جو کوئی تمہاری غیبت کرے تو سن کر نہ غصہ ہو، نہ یہ تعجب کرو کہ اس نے میرے ساتھ ایسا معاملہ کیا اور میرے حق کا یا میرے احسان کا یا میرے بڑے ہو نے کا یا میرے تعلق کاکوئی خیال نہیں کیا، کیونکہ اگر انصاف سے دیکھو تو تم بھی خود سب کے ساتھ ہر وقت ایک حالت پر نہیں رہ سکتے ہو۔ سامنے الگ برتاؤ ہوتا ہے اور پس ِپشت الگ ۔پھر جس مصیبت میں خود مبتلا ہو، اس معاملے میں دوسروں پر کیوں تعجب کرتے ہو؟ کسی سے امیدیں وابستہ مت کرو۔

خلاصہ یہ کہ کسی سے کسی طرح کی کوئی توقع مت رکھو، نہ تو کسی قسم کا فائدے پہنچنے کی، نہ کسی کی نظرمیں عزت بڑھنے کی اور نہ کسی کے دل میں محبت پیدا ہونے کی۔ جب کسی سے کوئی امید نہ رکھو گے تو پھر کوئی تم سے کیسا ہی برتاؤکرے گا تمہیں ذرا بھی تکلیف نہیں ہوگی ،اور خود جہاں تک ہوسکے سب کو فائدہ پہنچاؤ۔ اگر کسی کے لیے کوئی بھلائی کی بات سمجھ میں آئے اور یہ یقین ہو کہ وہ مان لے گا تو اس کو بتا دو، ورنہ خاموش رہو۔ اگر کسی سے کوئی فائدہ پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو اور اس شخص کے لیے دعا کرو اور اگر کسی سے کوئی نقصان یا تکلیف پہنچے تو یہ سمجھو کہ یہ میرے کسی گناہ کی سزا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کرو اور اس شخص سے بغض مت رکھو۔ غرض یہ کہ مخلوق کی بھلائی کو نہ دیکھو، بلکہ ہر وقت اللہ تعالیٰ پر نگاہ رکھو، اسی سے تعلق رکھو اور اسی کی تابعداری اور یاد میں لگے رہو، اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں