نماز کے فدیہ کی مقدار اور مصرف

سوال : مفتی صاحب نماز کا فدیہ کتنا ہے اور مرنے والے کا فدیہ وارث دے سکتے ہیں ؟اور فدیہ کی رقم کتنی ہے اور کہاں خرچ کی جاسکتی ہے ؟تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں

الجواب حامدا ومصلیا

اگر کسی آدمی کا انتقال ہوجائے اور اس کے ذمہ قضا نمازیں باقی ہوں تو اگر اس نے اپنی قضا نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو تو ورثاء پر لازم ہے کہ اس کے ایک تہائی ترکہ میں سے فی نماز ایک فدیہ ادا کریں، لیکن ایک تہائی مال سے زائد رقم فدیہ میں ادا کرنا ورثاء پر واجب نہیں ، اگر اس نے وصیت ہی نہ کی ہو تو ورثاء پر فدیہ ادا کرنا لازم نہیں، البتہ ان دونوں صورتوں میں عاقل بالغ ورثاء اگر اپنے حصہ اور مال میں سے رضاکارانہ طور پر ادا کردیں تو انشاءاللہ ادا ہوجائے گا اور میت پر بڑا احسان ہوگا ۔

ایک نماز کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے اور روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازیں ہیں تو ایک دن کی نمازوں کے فدیے بھی چھ ہوئے، صدقہ فطر کی کم سے کم مقدار پونے دو کلو گندم یا اس کا آٹا یا اس کی قیمت ہے

فدیہ کا مصرف وہی ہے جو زکاۃ کا مصرف ہے یعنی وہ شخص ہے جس کی ملکیت میں قرضوں کو منہا کرنے کے بعد پانچ چیزیں (سونا،چاندی،نقدی،مال تجارت،ضرورت سے زائد سامان،)یا ان میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر نہ ہو ایسا شخص شرعاً مستحق زکوۃ ہے اور اس کو زکوۃ ،فدیہ، کفارہ، اور تمام صدقات واجبہ دینا جائز ہے بشرطیکہ وہ سید یا ہاشمی نہ ہو۔

الدرالمختار وحاشیہ ابن عابدین ۲/۷۲

“(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر) وإنما يعطي (من ثلث ماله) (قوله وإنما يعطي من ثلث ماله) أي فلو زادت الوصية على الثلث لا يلزم الولي إخراج الزائد إلا بإجازة الورثة”

الدر المختار مع الرد المختار۲/۳۳۹ ط سعید

“باب المصرف أي مصرف الزكاة والعشر(قوله: أي مصرف الزكاةوالعشروهو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة كما في القهستاني)هو فقیر۔۔۔ومسکین۔۔۔وعامل۔۔۔فيعطى ولو غنيا لا هاشمياومديون

لا يملك نصابا فاضلا عن دينه”

واللہ اعلم بالصواب

حنظلہ عمیر بن عمیر رشید

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھوراجی کراچی

۸/۵/۱۴۴۱ھ

2019/1/4ء

اپنا تبصرہ بھیجیں