قرآن مجید کا حفظ کرنا بہت بڑی سعادت ہے اس سعادت کا حقیقی صلہ تو اللہ جل شانہ آخرت میں عنایت فرمائیں گے مگر اس دنیا میں بھی بڑی بڑی نعمتیں حافظ قرآن کو عطا ہوتی ہیں بقدر ما یجوز بہ الصلوۃ یعنی اتنا قرآن مجید یاد کرنا کہ جس سے نماز ادا ہوجائے ( تین چھوٹی آیا ت یا ایک بڑی آیت ) ہر مسلمان پر فرض عین ہے اورپورا قرآن مجید حفظ کرنا فرض کفایہ ہے ۔
حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی ؒ فضائل قرآن ص11 میں تحریر فرماتے ہیں کہ :
” اگر کوئی بھی العیاذ باللہ حافظ نہ رہے تو تمام مسلمان گناہ گار ہیں زر کشی ؒ سے ملا علی قاری ؒ نے نقل کیا ہے کہ جس شہر یا گاؤں میں کوئی قرآن پاک پڑھنے والا نہ ہو تو سب گناہ گار ہیں”۔
الحمد للہ ثم الحمد للہ آج کل لوگوں میں حفظ کا رجحان بہت ہے تقریباً ہر گھر میں ایک حافظ موجود ہے یا کوشش جاری ہے بلکہ بعض گھروں میں متعدد حافظ موجود ہیں اب اتنے حافظ ہوگئے ہیں کہ مسجدیں تراویح پڑھانے کے لیے کم پڑگئی ہیں بعض مساجد ومکاتب اور مدارس میں بیسویں حفاظ بیک وقت قرآن مجید تراویح سنارہے ہوتے ہیں محلے کے کئی گھروں میں قرآن مجید سنایا جارہا ہوتا ہے ۔
حفظ قرآن کا یہ جذبہ قابل قدر ہے مگر اس کا دوسرا پہلو نہایت ہی خطرناک ہے اور وہ ہےقرآن مجید کا حفظ کر کے بھلادینا آج کل والدین جوش میں آکر یہ فیصلہ کر تو لیتے ہیں مگر اس کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے حفظ قرآن کا تقاضا یہ ہے کہ دوران تعلیم حفظ کو پختہ کیاجائے اور حفظ کی تکمیل کے بعد کم از کم ایک سال یا چھ ماہ اس کی گردان کی جائے اوراس کے بعد بھی پوری زندگی بلاناغہ اس کی تلاوت ( حفظ ) کی جائے تاکہ جونعمت اوراعزاز اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے اس کی ناقدری نہ ہو۔
آج کل والدین جب داخلہ کے لیے آتے ہیں تو بعض کا کہنا ہوتا ہے کہ ہم نے فلاں سکول سے بچے کو اٹھالیا ہے ایک سال کی چھٹی لی ہے اور سکول کی فیس بھی ادا کررہے ہیں آپ ایک سال میں حفظ مکمل کرادیں۔ ان کو سوچناچاہیے کہ ہر بچے کا ذہن اور صلاحیت ایک جیسی نہیں ہوتی بہت ہی ذہین بچہ شایدایک سال میں حفظ کرسکے ورنہ ڈیڑھ،دو،تین یا چار سال میں حفظ مکمل ہوتا ہے پھر حفظ کے بعد گردان ( دہرائی ) کے لیے بھی وقت درکار ہے ورنہ دو، چار سالوں کی محنت پرپانی پھر جائے گا۔صرف بچے کی محنت ہی رائیگاں نہیں جاتی بلکہ والدین اور اساتذہ کی محنت بھی اکارت ہوتی ہے ۔
بعض والدین اور بچے حفظ کی تکمیل تک تو صبرسے کام لیتے ہیں مگر جونہی حفظ مکمل ہوا سکول میں داخلہ ہوجاتا ہے جس سے بچہ دو کشتیوں کے سوار کے مترادف ہوجاتا ہے اور مثل مشہور ہے کہ “دو کشتیوں کا سوار ہمیشہ ڈوبا ہی کرتا ہے ” چونکہ سکول کی پڑھائی میں دلچسپی کی وجہ سے حفظ کو بالکل ترک کردیاجاتاہے یا پھربرائے نام وقت دیاجاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چھ ماہ یا سال بعد والدین کف افسوس ملتے دوبارہ حفظ کے استاذ کے پاس آکر التجا کرتے ہیں مگر “اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت “ساری محنت پر پانی پھر جاتا ہے پھر نئے سرے سے کام شروع ہوتا ہے بڑی محنت اور جدوجہد کے بعد دوبارہ اس درجہ تک پہنچایا جاتاہے جہاں سے طالب علم چھوڑ کر گیاتھا۔ اکثر وبیشتر تو بچے باغی ہوجاتے ہیں اوروالدین بھی کم ہمت،ناامید ،اور سست ہوجاتے ہیں جس کی وجہ بچہ اوروالدین دونوں اس نعمت عظمیٰ سے محروم ہوجاتے ہیں بلکہ الٹا وعید اورعذاan ko ب اپنے سر لے لیتے ہیں کیونکہ قرآن مجید کو یاد کر کے بھلادینا گناہ کبیرہ ہے جس میں بچے کے ساتھ ساتھ والدین بھی شریک ہوتے ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشادگرامی ہے کہ :عرضت علی ذنوب امتی فلم ارفیھا ذنبا اعظم من سورۃ او ایۃ من القراٰن اوتیھا رجل ثم نسیھا
مجھ پر میری امت کےگناہ پیش کیے گئے سو میں نے ان میں کوئی گناہ اس سے بڑھ کر نہیں دیکھا کہ کسی شخص کو قرآن کی کوئی سورت یا آیت عطا کی گئی ہو پھر اس نے اس کو بھلادیا ہو” ( عنایات رحمانی ج 1ص 189)
اسی وجہ سے استاذ الحفاظ والقراء حضرت قاری رحیم بخش صاحب پانی پتی ؒ آداب تلاوت ص 40 پر تحریر فرماتےہیں۔
قرآن مجید یاد ہوجانے کے بعد اس کا یاد رکھنا فرض ہوجاتا ہے روزانہ منزل پڑھنی چاہیے اگر خدانخواستہ بچہ سکول کی نذر ہوگیا تویہ اس کے لیے سم قاتل ہے اس صورت میں اس کا حفظ تو حفظ اس کی نماز وغیرہ سب دینی باتیں ختم ہوجائیں گی پس اس سے اجتناب از حد ضروری ہے بلکہ میرا مشورہ یہ ہے کہ جس بچے کے متعلق یہ گمان غالب ہو کہ وہ حفظ سے فارغ ہو کر ( فورا ) سکول میں جائے گا ( اورحفظ بھلادے گا )تواس کو حفظ کرایا ہی نہ جائے ( تاکہ قیامت والے دن پکڑ سے بچ جائے )بلکہ ناظرہ پڑھایاجائے اور نماز اوردینی باتوں کا خوگر بنادیاجائے ۔”
احقر عرض کرتا ہے کہ قاری صاحب ؒ نے سچ فرمایا ہے کہ ایسے بچوں کوحفظ نہ کرایاجائے جن کے متعلق قرائن سے معلوم ہوجائے کہ بعد میں بھول جائیں گے بلکہ ان بچوں کو اس کام کے لیے چناجائے جو اسکے اہل ہوں آخر دنیا کے کاموں میں بھی تو چناؤ ہوتا ہے تو پھر آخرت کے یادین کے کاموں میں چناؤ کیوں نہ کیاجائے جیسے پولیس یا فوج میں شمولیت کے لیے چناؤ ہوتا ہے کہ تندرست ہو،معذور نہ ہو،ذہین ہو،کند ذہن نہ ہو، چاق وچوبند ہو کاہل وسست نہ ہووغیرہ بلکہ فضائیہ میں شمولیت کے لیے تو اور زیادہ کڑی شرائط رکھی جائیں تو بے جا نہ ہوگا اور حفظ قرآن از امور دین ہے نہ کہ دنیا۔
قرآن بھلانے کی سزا آخرت میں توہو گی ہی دنیا میں بھی اس کی سزا ملتی ہے دنیا میں لوگوں کی نظر سے گرجاتاہےبلکہ اس کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے ،گذر مکدران اور تنگ ہوجاتی ہے بعض علماء نےقرآن پاک کو بھلانے کو سورہ طہ کی آیت نمبر 124 کا مصداق قررادیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے ۔
وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ ﴿١ل٢٤﴾
قرآن مجید پر عمل میں کوتاہی کرنا منجملہ بھلانے ہی کے ہے بلکہ اصل بھلانا یہی ہے ، (عنایات رحمانی ج 1ص 189)
احقر کے پاس ایک شخص اپنے بچے کو لایا اور بتایا کہ اس نے سات آٹھ پارے حفظ کیے تھے اب وہ سلسلہ ختم ہوگیاتھا اس کو نئے سرے سے جاری کردیں آپ کو حیرت ہوگی کہ جب اس بچے سے میں نے سنا، حفظ تو حفظ ، ناظرہ بھی بھول چکاتھا بلکہ آپکو زیادہ حیرت ہوگی کہکہ حروف تہجی بھی بھول چکاتھا۔ (اللھم احفظنا منہ )
قرآن مجید اللہ کا کلام ہے جیسے اللہ جل شانہ ہمارے محتاج نہیں بلکہ ہم ان کے محتاج ہیں اسی طرح اللہ کا کلام بھی ہمارامحتاج نہیں ہم اس کے محتاج ہیں اگرخدانخواستہ ہم نے اسے چھوڑاتو یہ بھی ہمیں چھوڑدے گا اسی وجہ سے سرور کونین ﷺ کے ارشادات گرامی ہیں ۔
- تعاھدوا القرآن فو الذین نفسی بیدہ لھو اشد تفصیا من الابل فی عقلھا۔ ( متفق علیہ )
قرآن کی خبر گیری کرو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اونٹ اپنی رسی سے باندھا گیا ہے اگر اس کی خبر گیری رکھتا ہے تووہ بندھا رہتا ہےاگر اس کوچھوڑدیتا ہے تو جاتا رہتا ہے ۔ ( مشکوٰۃ)
ان احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے حافظ اورقرآن کو،ا ونٹ والے اوراونٹ سے مثال دے کر فرمایا کہ جس طرح اونٹ والا اونٹ کی رسی پکڑے تھامے رہے اس کو باندھے رہے تو وہ اسکے پاس رہتا ہے اور اس کے قبضہ میں رہتاہے اوراگر اونٹ والا اونٹ کی دیکھ بھال نہ کرے یا اس کی رسی کو چھوڑدے تو وہ جدھر چاہتا ہے چلاجاتا ہے اسی طرح اگر حافظ قرآن کی تلاوت کرتا رہے تو قرآن اس کے سینہ میں محفوظ رہےگا ورنہ اونٹ کی طرح چلاجائے گا اور کتاب الحیوان میں ہے کہ اونٹ میں یہ صفت ہے کہ جب یہ چلتا ہے تو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتابنسبت دوسرے جانوروں کے جب وہ چلتے ہیں تو پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں ۔
فتح المرید فی علم التجوید ص52 پر الشیخ عبد الحمید یوسف منصور ۔۔۔۔۔اسی مضمون کو نہایت احسن انداز میں تحریر فرماتے ہیں ۔
من ترک القرآن یوما ترکہ القرآن اسبوعا ومن ترکہ اسبوعا ترکہ شھرا ومن ترکہ شھرا ترکہ سنۃ ومن ترکہ سنۃ ترکہ الدھر کلہ ۔”
یعنی جوقرآن کو ایک دن کے لیے چھوڑتا ہے قرآن اس کو ایک ہفتہ کے لیے چھوڑتا ہے اورجوقرآن کو ایک ہفتہ کے لیے چھوڑےتو قرآن اس کو ایک ماہ کے لیے چھوڑڈیتا ہے اور جوقرآن کو ایک ماہ کے لیے چھوڑے قرآن اس کو ایک سال کے لیے چھوڑدیتا ہے اور جوقرآن کو ایک سال کے لیے چھوڑدے توقرآن اس کو زندگی بھر کے لیے چھوڑدیتا ہے۔
نیزوہ لکھتے ہیں کہ
القرآن اخف من الحمامۃ واثقل من الجبل “
یعنی قرآن ، پابندی سے پڑھنے والے کے لیے کبوتر سے زیادہ ہلکا اور نہ پڑھنے اور چھوڑدینے والے کے لیے پہاڑسے بھی زیادہ بھاری ہے ۔
نیز ارشاد نبوی تعاھدوا القرآن اقرؤاالقرآن میں صحابہ کو تاکید فرمائی جارہی ہے کہ قرآن کی خبر گیری کرو ( کثرت سے تلاوت کرو ) یاد کرتے رہا کرو حالانکہ ان کے حافظے بہت زیادہ قوی تھے اس کے باوجود بھی تاکید فرمائی ہمارے زمانے کے حافظے تو نہایت ہی کمزور ہیں اس لیے ہمیں تو بہت زیادہ کثرت سے تلاوت کا اہتمام کرنا چاہیے ۔ اور کثرت سے تلاوت کرنے کا انعام یہ ملے گا کہ روز قیامت قرآن یاد ہوگا بھولے گا نہیں کیونکہ جب حافظ کو حکم ہوگا اقراوارتق ورتل
“قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جا” تو ملا علی قاری ؒ سے نقل کردہ حدیث کے مطابق اگر دنیا میں بکثرت تلاوت کرتا رہا تو اس وقت بھی یاد ہوگا ورنہ بھول جائے گا۔ (فضائل قرآن ص 25)
احادیث کے الفاظ القرآن یحاج العباد القرآن حجۃ لک او علیک ، ومن جعلہ خلفہ ساقہ الی النار صاف صاف بتلارہے ہیں کہ قرآن ان لوگوں کے خلاف جھگڑا کرے گا اور انہیں جہنم میں گرائے گا جنہوں نے اس کے حقوق کو تلف کیا اوراسے پس پشت ڈال دیا۔
ارشاد نبوی ﷺ : ” مامن امرء یقرا القرآن ثم ینساہ الا لقی اللہ یوم القیامۃ اجذم ( مشکوۃ بحوالہ ابوداؤد، والدارمی )
“یعنی کوئی شخص ایسا نہیں جوقرآن کو پڑھتا ہو پھر اس کو بھول جائے مگر وہ قیامت کے دن کٹے ہاتھ سے اللہ سے ملاقات کرے گا۔”
قرآن مجید اگر بھول جائے تو یوں اس کو نہ بیان کیاجائے کہ ” میں قرآن بھول گیا ہوں ” بلکہ یوں کیاجائے کہ میں بھلادیاگیا ہوں ” کیونکہ قرآن کو بھولنا قرآن کی عظمت کے خلاف ہے اس لیے اس کو یوں کہیے کہ میری کم نصیبی اور کوتاہی ہے کہ میں نے اس نعمت عظمیٰ کی قدر نہیں کی۔اسی کاا رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا :
بئس مالاحد ان یقول نسیت ایۃ کیت وکیت بل نسی ( مشکوۃ بحوالہ بخارہ ومسلم )
قرآن مجید کا بھولنا بعض اوقات کسی بیماری یا حادثے کی وجہ سے ہوتا ہے اور بعض دفعہ اپنی سستی کاہلی کی وجہ سے اور بعض دفعہ گناہوں کی وجہ سے،گناہوں کا نسیان میں بڑا دخل ہے حضرت امام شافعی ؒ کا شعر ہے :
شکوت الی وکیع سوء حفظی
فارشدنی الی ترک المعاصی
فان الحفظ فضل من الہ
وفضل اللہ لا یعطی لعاصی
( میں نے امام وکیعؒ سے کم حفظی کی شکایت کی تو آپ نے گناہوں کو چھوڑنے کی ہدایت کی کیونکہ حافظ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل گناہگاروں کو نہیں دیاجاتا )
حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے مواعظ میں ایک عبرتناک واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ حضرت جنید ؒ چلے جارہے تھے ایک حسین لڑکا نصرانی کا سامنے آرہا تھا ایک مرید نے پوچھا کہ کیا اللہ تعالیٰ ایسی صورت کو بھی دوزخ میں ڈالیں گے ؟ حضرت جنید ؒ نے فرمایا کہ تو نے اس کو نظر استحسان سے دیکھا ہے عنقریب اس کامزہ تم کو معلوم ہوگا چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شخص قرآن شریف بھول گیا۔ ( نعوذ باللہ ) امثال عبرت )
گناہوں کی کثرت کے علاوہ ہموم وغموم دنیوی کی زیادتی بہت سے کاموں اور تعلقات کوبڑھانا، ہرا دھنیا کھانا،کھٹا سیب کھانا،سولی پر لٹکے ہوئے دیکھنا ،قبروں کے کتبوں کو پڑھنا،اونٹوں کے درمیان میں چلنا، زندہ جوؤں کو بغیر مارے پھینک دینا گدی پر پچھنے لگوانا یہ سب چیزیں حافظہ کو کمزورکرتی ہیں ۔ ( تعلیم المتعلم طریق التعلم ص 18)
1۔حفظ کی تکمیل کے بعد گردان ( دہرائی ) کے لیے کم از کم ایک سال یا چھ ماہ ضرور لگانے چاہئیں۔
2۔روزانہ کم از کم ایک پارہ حفظ پڑھنا چاہیے یا کسی کو سنا سینا چاہیے ۔
3۔ہر سال تراویح میں قرآن مجید سنانا چاہیے ۔
4۔احکامات قرآنی پر عمل کرنا چاہیے ۔
5۔گناہوں سے اوردیگر چیزوں سے بچنا چاہیے جو حافظہ کو کمزورکرتی ہیں ۔
6۔استاذ القراء قاری رحیم بخش پانی پتی ؒ کی تجویز کے مطابق تہجدکی آٹھ رکعتوں میں تین پارے پڑھ لیا کریں کہ اس عمل سے ان شاء اللہ قرآن مجید خوب پختہ ہوجائے گا نیز سورہ بقرہ کی ابتداسے مفلحون تک اور آیۃ الکرسی سے خالدون تک اورآخری رکوع بقرہ کا روزانہ بعد از عشاء پڑھ لیا کریں کہ ان آیات کے پڑھنے والے کوقرآن مجید یاد رہتا ہے ۔ ( آداب تلاوت ص 48)
7۔ یہ دعاء بھی مسنون ہے عن ابن مسعود عن النبی ﷺ قال من خشی ان ینسی القرآن فلیقل “اللھم نور بکتابک بصری واطلق بہ لسانی واشرح صدری واستعملبی جسدی بحولک وقوتک فانہ لاحول ولاقوۃ الا بک ۔” (نہایۃ القول المفسد 313)
اللہ جل شانہ ہم سب کو ان تجاویز پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائیں ۔اور نسیان قرآن سے بچائیں ، آمین ثم آمین
نوٹ : حفظ قرآن کے اسباق مکمل ہونے سے پہلے حفاظ ،والدین اوراساتذہ کرام کو بہت جلدی ہوتی ہے کہ کل ہوتا اورآج ختم قرآن ہوجائے اسکا نقصان یہ ہوتاہے کہ آخری پارے کمزور رہ جاتے ہیں اورساری عمر اس پر اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔
ایسے ہی تکمیل اسباق کے بعد والدین کو جلدی ہوتی ہے کہ گردان کرائے بغیر ان کو اکیڈمی میں یا درجہ تجوید یا درجہ کتب میں داخلہ دلایا جائے کیونکہ گردان کرنے سے سال ضائع ہوجائے گا ۔انہیں یہ معلوم نہیں کہ گردان نہیں کرنے سے کئی سال ضائع ہوجائیں گے یعنی نسیان القرآن سے سابقہ محنت پر پانی پھر جائے گا ۔دوسرے گردان کرنے سے سال ضائع ہوتا ہے؟یہ ایک غلط سوچ ہے اس فقرے کو توزبان پر لانا ہی نہیں چاہیے ۔
التعجیل من الشیطان پر عمل پیرا ہونے کے بجائے بردباری اور تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور قرآن مجید کی گردان مکمل کر کے اورقرآن مجید کو پکا یاد کرکے آگے تعلیم شروع کی جائے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین ۔