پہلا صحابی

یہ بیان ہے نبوت کے اس شیدائی کا جس کی زندگی کا چپہ چپہ اپنے محبوب کی حیات کی پوری پوری تعبیر ہے ۔۔۔۔۔۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ۔۔۔۔۔۔جن کی صداقت و امانت پر قرآن بھی شاہد عدل ہے۔ قارئین کی خدمت میں آپ کی حیات انور کا ایک مختصر خاکہ پیش کیا جارہا ہے۔

حلیہ  مبارک  نام ونسب:

آپ نکھری ہوئی گندمی رنگت، موزوں قدو قامت، نحیف بدن، پرسوز آواز کے مالک ایک وجیہ شخص تھے۔ گھنگریالے بال، پسینہ سے معطر بلند جبین، نشیب میں بیٹھی ہوئی آنکھیں، رخساروں پر نظر آنے والی ہڈیاں، خمیدہ کمر جس سے تہبند یا شلوار خود بخود پھسل جایا کرتی ہے یہ آپ کے حسنِ قالب کا ایک تحریری خاکہ ہے۔
(علی الطنطاوی، ابوبکر الصدیق)
    مشہورِ زمانہ واقعہ فیل کے ڈھائی سال بعد بطحاء مکہ میں آپ کی ولادت ہوئی۔ جاہلی نام عبدالکعبہ اور اسلامی نام عبداﷲ بن عثمان ابوقحافہ ہے۔ ام الخیر سلمیٰ والدہ کا نام ہے۔ ابوبکر کنیت اور صدیق و عتیق آپ کے لقب ہیں۔ چھٹی پشت میں سلسلہ نسب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔
حالات قبل از اسلام:
    بچپن ہی سے حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے رفیق و ہمراز رہے۔ ١٨ سال کی عمر میں پہلا سفر یمن کی طرف بغرضِ تجارت کیا۔ بعض روایات کی رو سے جس سفر میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی ملاقات بحیرا راہب سے ہوئی تھی آپ ؓ بھی اس قافلے کے ساتھ تھے۔
(جامع الترمذی ص ٦٨٠ باب ماجاء فی بدء النبوۃ، علی الطنطاوی ابوبکر الصدیق)
    کپڑوں کی تجارت کرتے تھے دورِ جاہلیت میں نہ تو کبھی شراب پی اور نہ ہی کسی بت کے سامنے سجدہ ریز ہوئے۔ اس دور میں بھی اپنی قوم قریش میں بڑی معروف و مشہور، معزز اور محبوب شخصیت تھے۔ معاملات میں دیانتداری، حسن اخلاق، پاکدامنی، وسعت
معلومات، دانشمندی اور شفقت و محبت جیسے بلند پایہ اوصاف نے آپ کو ہر دلعزیز اور ممتاز شخصیت بنادیا تھا۔ لوگ اپنے مشوروں کے لےے آپ کی خدمات حاصل کرتے۔ کسی قبیلہ میں قتل ہوجاتا تو آپ اگر خون بہا دیتے تو اس کی ضمانت قبول ہوتی ورنہ نہیں۔ شعرگوئی پر پوری دسترس تھی۔ اسلام لانے کے بعد شعر گوئی کو خیرباد کہہ دیا۔
حالات بعد از قبول اسلام:
    آپ رضی اﷲ عنہ نے بالغ آزاد مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے جس کسی کو اسلام کی دعوت دی اس نے ابتدامیں   ہچکچاہٹ کی  ۔ لیکن آپ واحد صحابی ہیں کہ آپ نے بلا تردد اسلام قبول کیا تھا۔     (بخاری: ١/٥١٦، ٥١٧)
    صرف اسی پر بس نہیں کی اسلام قبول کرنے کے بعد جان و مال سے اس کی نشر و اشاعت اور تبلیغ میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ ٤٠ ہزار درہم کے مالک تھے سارا مال اسلام کی سربلندی اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود میں لٹا دیا۔ آپ ہی نے ظلم و بربریت کے شکار کمزور اور نادار مسلمان غلاموں حضرت بلالؓ، حضرت عامر بن فہیرہ، حضرت ابوفکیہہ اور بُسینہ، زنیرہ، اُم بلال، اُم عبیس، نھدیہ اور اس کی بیٹی اور بنی مومل کی ایک باندی کو کفار کے پنجہءِ ستم سے آزاد کرایا۔ حضرت عثمان غنی، حضرت زبیر بن العوام، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت طلحہ بن عبیداﷲ، حضرت عثمان بن مظعون، حضرت ابوعبیدہ، حضرت خالد بن سعید، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت ابوسلمہ رضی اﷲ عنہم اجمعین جیسے کبارِ صحابہ آپ ہی کی کوششوں سے مشرف بہ اسلام ہوئے۔
    جس زمانے میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم مع بنو ہاشم شعب ابی طالب میں محصور تھے فراقِ یار کے غم اور قریش کے تابڑ توڑ مصائب سے دلبرداشتہ ہوکر حبشہ کی طرف ہجرت کے ارادے سے نکلے۔ ابن الدغنہ اپنی امان پر واپس لے کر آیا تو قریش نے کہا کہ ہمیں ان سے کوئی گلہ نہیں بس شرط یہ ہے کہ قرآن بلند آواز سے نہ پڑھا کریں۔ اپنی مذہبی عبادت اعلانیہ ادا نہ کریں۔ سیدنا صدیق اکبر نے چند دن تو خاموش عبادت میں گزارے اس کے بعد رہا نہ گیا۔ گھر کے باہر ایک مسجد بنا کر اس میں عبادت اور بلند آواز سے تلاوت شروع کردی۔ یہ تاریخ اسلام کی پہلی مسجد تھی جو آپ کے منجملہ خصائص میں سے ایک ہے۔
    ایک مرتبہ قریش نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو بے حد زدو کوب کیا جس سے حضور بے ہوش ہوگئے۔ سیدنا ابوبکر کو معلوم ہوا تو فوراً بچاؤ کے لےروانہ ہوئے۔ ظالموں نے آپ کی درگت بنادی اتنا مارا کہ سر پر جب بھی ہاتھ لگاتے خون کے ساتھ بال ضرور ہوتے۔ بالوں کی پوری ایک چوٹی قربان گاہ کی نذر ہوگئی۔ یہ بھی آپ کی انفرادی سعادت ہے کہ حضورﷺ کی حمایت میں سب سے پہلے لڑنا نصیب ہوا۔
    ہجرت مدینہ کے سفر میں آپ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہمسفر تھے۔ یہ انتخاب جبرائیل امین کے مشورے سے ہوا تھا۔ ہجرت کی مشقتوں اور غار ثور کی تنہائیوں کے ساتھی آپ ہی ہیں۔ مسجد نبوی کی زمین کی قیمت حضور ﷺ نے آپ کے مال سے ادا کی جودس دینار تھی۔
    مدنی زندگی میں جب سلسلہ غزوات شروع ہوا تو آپ کسی غزوہ میں پیچھے نہ رہے۔ بدر میں حضورؐ کو تسلی دی۔ احد و حنین میں لغزش نہ آنے دی۔ تبوک جیسے کٹھن معرکہ کی تیاری کے لیے اپنے گھر کا تمام سازوسامان راہِ حق میں لٹا دیا۔ تیمم کی مشروعیت آپ کی اولاد کی برکت سے ہوئی۔ اپنی چہیتی بیٹی عائشہ رضی  اللہ عنہ کو حضور کے نکاح میں دیا۔ آپ کے انہیں احسانات اور قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ حضور سرور دوعالمﷺ فرماتے ہیں کہ میں ابوبکرکے احسانات کا بدلہ اس دنیا میں ادا نہیں کرسکا۔
خلافت کی طرف اشارہ:
    اسی محبت کا نتیجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مرض الوفات میںآپ نائب امام بنائے جاتے ہیں۔ فتح مکہ کے بعد جب موسم حج شروع ہوتا ہے تو آپ امیر الحجاج کی حیثیت سے روانہ ہوتے ہیں۔ مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام دروازے، کھڑکیاں بند کردی جاتی ہیں تو ابوبکر کی کھڑکی کھلی رہتی ہے۔ حضورﷺ مرض الوفات میں فرماتے ہیں:
    ” میرا ارادہ ہوا تھا کہ ابوبکر اور ان کے فرزند عبدالرحمن کو بلا بھیجوں اور ان کو اپنا ولی عہد بنادوں لیکن پھر میں نے اپنا ارادہ منسوخ کردیا کیونکہ اﷲ تعالیٰ انکار کرے گا کہ ابوبکر کے سوا کوئی اور خلیفہ ہو اور اہل ایمان بھی سوائے ابوبکر کے کسی اور خلافت کو قبول نہیں کریں گے۔”         (بخاری: ص ١٠٧٢)
حالات دور خلافت:
    آزمائش اور مشکلات سے بڑھ کر کوئی چیز انسانی شخصیت کو اجاگر کرنے والی نہیں ہوتیں۔ بڑی شخصیت ظہور پذیر ہی اس وقت ہوتی ہے جب وہ آزمائشوں، مشکلات اور خطرات کو خاطر میں لائے بغیر ان سے ثبات قدمی کیساتھ نبرد آزما ہوتی ہے۔ آفتاب نبوت کے غروب ہونے کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  کو کڑی آزمائشوں سے ٹکر لینا پڑی۔ قوم اور اجلہ صحابہ کرام تک حضورﷺکی وفات پر یقین کرنے کو تیار نہ تھے۔ حضرت عمرؓ جیسے ہوش مند بھی ننگی تلوار لیے  کھڑے تھے۔ لیکن سیدنا ابوبکر اس آگ میں بے خطر کود پڑے اور مندرجہ ذیل قرآنی کلمات سے پوری قوم کے شک و تردد کو یکسر ختم کردیا: ”محمدﷺ بنیادی طور پر اﷲ کے رسول ہیں آپ سے پہلے بھی اس مقدس مشن کیلئے رسول آچکے ہیں اب اگر ان کو سانحہ وفات پیش آگیا ہے یا آپ قتل ہوچکے ہیں تو کیا تم لوگ اچانک بدل جاؤ گے اور پیٹھ دکھانے لگو گے۔”
(آل عمران،بخاری :ص ٥١٧، ٥١٨)
بیعت خلافت، سقیفہ بنی ساعدہ (جو حضرت سعد بن عبادہ کی حویلی کا نام ہے) میں ہوئی۔ حضرات انصاررضی اﷲ عنہ اپنے اندر سے خلیفہ بنانا چاہتے تھے سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ  نےاس  موقع پر حضورﷺ کا یہ فرمان سنایا: ”ائمہ قریش میں سے ہونے چاہئیں!” انصار فرمان نبوی سن کر اپنی خلافت سے دستبردار ہوگئے۔ سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کے نام گرامی خلافت کی بیعت کے لیے  پیش کیے ۔ انہوں نے دانش مندی اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے خود سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ پھر کیا تھا تمام حاضرین نے اور پھر پوری مسلم قوم نے برضا و رغبت بیعت کر لی۔ حضرات علی، حسن و حسین، عباس اور ان کی اولاد، زبیر بن العوام، طلحہ، مقداد، سلمان، عمار، ابوذر، خالد بن سعید اور سعد بن عبادہ رضوان اللہ اجمعین  نے بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر بیعت میں تاخیر کی۔ بعد میں سب نے جلد یا بدیر بیعت کر لی حضورﷺ کی تدفین ، بیعت عام کے بعد ١٣ اور ١٤ ربیع الاوّل کی درمیانی شب عمل میں آئی۔
داخلی شورشیں:
    سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے زمان  خلافت سنبھالی تو ہر طرف کفر و ارتداد کے بھوت نظر آئے۔ مسیلمہ کذاب، طلیحہ اسدی اور سجاح کی ارتدادی سرگرمیاں، اسود عنسی کذاب (جو حضور کے زمانہ میں ہی موت کے گھاٹ اُتر چکا تھا) کے حامیوں کی فتنہ پردازی، ٢٤ مسلم قبائل جو سب کے سب نو مسلم تھے اسلام ان کے دلوں میں راسخ نہ ہوسکا تھا جو مرکز سے بہت دور بحرین، یمن اور نواحی مدینہ کے بدوی تھے، کا اسلام سے مرتد ہوجانا، کچھ لوگوں کا دوبارہ بت پرستی اختیار کر لینا، بعض کا زکوٰۃ کے حکم سے منکر ہوجانا، یہ سب وہ فتنے اور آزمائشیں تھیں جن سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نمٹنا تھا۔ یہ تو داخلی فتنے تھے ادھر شام کی سرحد پر قیصرِ روم موقع سے فائدہ اٹھانے کے لےے پر تول رہا تھا۔ بقول ابن مسعود رضی اللہ عنہ اُمت کی مثال ان بکریوں کے ریوڑ کی سی ہوگئی تھی جو جاڑوں کی یخ بستہ راتوں میں برستے آسمان تلے ایک جنگل و بیابان میں بے آسرا و بے سہارا رہ گیا ہو۔”
    عمر عزیز کی صرف دو بہاریں ہیں اور آزمائشیں بے بہا!!! بھڑکتے فتنوں کے شعلوں کو سرد کرنے کے لیے  دو سال کی قلیل سی مدت بالکل ناکافی لگتی ہے لیکن قربان جائیے فراست صدیقی پر کہ جس نے اتنے قلیل عرصے میں امت کو ان تمام داخلی اور خارجی فتنوں سے بخوبی نکال لیا پھر اسلامی سرحدات کو مستحکم کر لینے پر ہی بس نہ کی، روم و فارس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا بھی شروع کردیں۔ چنانچہ روم و فارس کی فتوحات کا دروازہ عہد صدیقی میں ہی کھل گیا۔
    حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی جنگی مہمات کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
١۔    خلافت کے پہلے ٩ ماہ مرتدین اور منکرین زکوۃ کی سرکوبی میں گزرے۔ لشکر اسامہ جس کا جھنڈا حضور ﷺ کے دست اقدس سے بندھا ہوا تھا، کو شاہِ روم کی طرف روانہ کرنے کا ایک مقصد جس طرح رومیوں کی اس خوش فہمی کو دور کرنا تھا کہ مسلمان کمزور ہوچکے ہیں اسی طرح ایک مقصد یہ بھی تھا کہ یہ لشکر راستہ میں جہاں جہاں سے گزرے وہاں کہیں اگر ارتداد دیا انکارِ زکوۃ کی چنگاری سلگ رہی ہو تو وہ اس لشکر کو دیکھ کر رعب میں آجائیں اور اپنے ارادوں سے باز آجائیں چنانچہ یہ دونوں مقاصد سیدنا ابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ کو حاصل ہوئے۔ اسود عنسی ملعون کے پیروکاروں کیخلاف کامیاب دو جنگیں خود خلیفہ رسولﷺ کی سرکردگی میں ہوئیں۔ حضرت خالد بن ولید کو طلیحہ کی سرکوبی کے لیے  روانہ کیا گیا اس نے شکست کھائی اور شام بھاگ گیا بعد میں مسلمان ہوگیا اور آئندہ کی جنگی مہمات میں بڑے قابل فخر کارنامے انجام دیے۔ ادھر سجاح نامی مدعیہ نبوت عورت اور مسیلمہ کذاب نے ایکا کر لیا۔ سجاح نے مسیلمہ سے شادی رچالی۔ عشاء اور فجر کی نمازیں معاف کردیں جبکہ زنا و شراب کو حلال کردیا۔ ان دونوں کی متحدہ عسکری قوت کو توڑنے میں اسلامی فوج کو کافی دقت ہوئی۔ شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ اور پھر عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابی جہل کی فوجیں یکے بعد دیگرے ان کے مقابلے میں پسپا ہوئیں لیکن خالد سیف اﷲ کے مقابلے میں ان کا زیادہ زور نہ چل سکا۔ مسیلمہ کذاب حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں مردار ہوا۔ طلیحہ کی قوت کو کم کرنے میں حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کا بڑا ہاتھ رہا۔ انہوں نے دعوت و تبلیغ سے اس کے اکثر پیروکاروں کو اسلام کے جھنڈے تلے جمع کردیا تھا۔ یوں صرف 9 ماہ کے عرصے میں امت داخلی شورشوں سے مطمئن ہوگئی۔
٢۔     دوسرا حصہ خارجی فتنوں کیخلاف مہم جوئی کا ہے۔ اس کی ابتداء ١٢ھ کے محرم سے ہوتی ہے۔ سال کے اختتام پر کسریٰ عراق سے ہاتھ دھو بیٹھا ادھر دوسرے سال رومیوں کیخلاف ایک فیصلہ کن جنگ لڑی گئی ”جنگ یرموک” جس میں قیصر کی ٢ لاکھ سپاہ کی ٹکر میں مسلمانوں کی صرف ٤٢ ہزار فوج تھی۔ دراصل سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ
نے چار اطرف سے چار سپہ سالاروں (ابوعبیدہرضی اللہ عنہ، یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ، شرحبیل بن حسنہ اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو الگ الگ فوج کیساتھ روانہ کیا تھا۔ رومیوں کی فوجی نفری کو دیکھ کر حضرت عمرو بن العاصb نے تمام فوجوں کے اتحاد کامشورہ دیا تھا جسے قبول کر لیا گیا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو عراق سے بلایا گیا۔ اس دن کے امیر عام بھی خالدؓ مقرر ہوئے تھے انہوں نے بالکل نئی ترتیب سے جو عرب نے اس سے پہلے نہ دیکھی تھی فوج کو ترتیب دیا۔ چاشت کے وقت نقارے پر چوٹ پڑی اور اگلے دن طلوع آفتاب کے وقت یرموک پر لواءِ اسلام محوِ رقص تھا۔ عین اس وقت کہ جب جنگ کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے مدینہ کا قاصد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی وفات، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی معزولی اور ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی امارت عامہ کی خبر لے کر حاضر ہوا۔ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس عریضہ کی کانوں کان خبر نہ ہونے دی جب فتح مکمل ہوچکی تب عریضہ کو پڑھ کر سنایا۔ یوں ڈیڑھ سال کے عرصے میں قیصر و کسریٰ پر اپنی قوت کی دھاک بٹھا دی گئی۔ یہی فتوحات آئندہ کی وسیع فتوحات کی بنیاد بنیں۔
وفات:
    ٢٢ جمادی الاخریٰ ١٣ھ بروز پیر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ ٧ جمادی الاخریٰ کو ہوا سرد تھی آپ رضی اللہ عنہ نے غسل کیا تو سردی کے اثر سے بخار ہوگیا۔ مرض کی شدت دیکھی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جانشینی سے متعلق اپنی رائے اجلہ صحابہ کے مشورہ میں پیش کی۔ انہوں نے مشورہ کے بعد فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو آپ کا جانشین منتخب کیا۔ یہ وصیت کی کہ حضورﷺ کی طرح مجھے بھی تین کپڑوں کفن دینا! دو چادریں تو وہ جو میرے بدن پر ہیں اور ایک نیا کپڑا لے لیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جنازہ پڑھایا اور وصیت کے مطابق اپنے محبوب کے پہلو میں مدفون ہوئے رضی اﷲ عنہ۔ ایام خلافت دوبرس 3 ماہ گیارہ دن رہے۔
نمایاں اوصاف:
    آپ رضی اﷲ عنہ کی شخصیت میں یہ اوصاف نمایاں تھے۔ عشق رسولؐ، خاندان نبوت سے محبت، والدین کا ادب، بیویوں سے حسن سلوک، رازداری، مریضوں کی عیادت، سخاوت، خوش طبعی، خودداری، بے تعصبی، اولاد سے محبت اور بچوں سے پیار، عبادت، خشیت الٰہی، رقت قلب، محتاجوں اور غریبوں کی خدمت، غیرت دینی، سلام کرنے میں سبقت، توکل علی اﷲ، شجاعت، مہمان نوازی، عزم و ہمت، تواضع و انکسار، انفاق فی سبیل اﷲ اور مردم شناسی وغیرہ۔
خلیفۃ المسلمین کی تنخواہ:
    خلافت کے ابتدائی 6 ماہ بدستور تجارت کرتے رہے لیکن پھر بار خلافت کی وجہ سے اسے ترک کرنا پڑا۔ صحابہv کے مشورے سے بیت المال سے مصارف مقرر ہوئے جو یہ تھے: یومیہ نصف بکری، معمولی لباس جس میں یہ شرط تھی کہ پرانا لباس بیت المال میں داخل کردیا جائے۔ نقدی کی مقدار سالانہ ڈھائی ہزار سے چھ ہزار درہم تک (باختلاف روایت) بتائی گئی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے وفات سے پہلے اس کی تلافی میں بیت المال کے اندر چھ ہزار درہم جمع کرادیے تھے۔
فضائل و مناقب:
    پہلے قرآن، پھر حدیث رسول پھر منتخب اور اہل الرائے اصحاب رسول اور خود اپنے اجتہاد سے فیصلہ فرماتے تھے۔
    آپ کے فضائل قرآن و حدیث دونوںمیں موجود ہیں۔ ائمہ تفسیر کے بیان کردہ اسباب کے نزول کے مطابق قرآن کریم میں ١٠ سے زیادہ جگہ آپ کی فضیلت و منقبت (صراحۃً یا اشارۃً) نازل ہوئی ہےں۔ احادیث میں مجموعی طور پر ٣١٦ احادیث آپ کے فضائل میں وارد ہوئی ہیں جن میں ١٨١ احادیث میں خصوصی طور پر صرف آپ کے فضائل ہیں۔ اقوال صحابہ تو آپ کی مدحت سرائی میں بے شمارہیں۔
علمی کارنامے :
    آپ رضی اﷲ عنہ نے ٥٠٠ احادیث کا ایک مجموعہ تیار کیا جسے بعد میں خاص حکمت و مصلحت کی بناء پر ضائع کردیا تحقیق حدیث کے لیے اصول شہادت کی بنیاد رکھی۔ قرآن کو متفرق جگہوں سے ایک صحیفہ میں جمع کیا اور اس کا نام مصحف رکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ سے ١٤٢ احادیث مروی ہیں۔ فقہ میں اجتہاد کے قاعدہ کے موسس آپ ہی کی ذات گرامی ہے۔ فقہ کے مشکل مسائل: مثلاً، میراث جد، میراث جدہ، تفسیر کلالہ، شراب پینے کی سزا، ان سب مسئلوں کو حل کیا۔ (بخاری: ١/ ٥١٦)
    لشکر کشی کے ١٠ اصول مقرر فرمائے۔ آپb حافظ قرآن، مفسر قرآن تھے۔ تعبیر الرویاء اور انساب میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ کہا گیا ہے کہ انساب کا جتنا علم اس وقت امت کے پاس محفوظ ہے وہ سب آپ رضی اللہ عنہ ہی کے واسطے سے امت کو ملا ہے۔
    الغرض آپ ایک باکمال، بے مثال، لاجواب شخصیت اور استقامت و ثبات، عزم و ہمت کے کوہ گراں تھے۔
ہمارے لیے  سبق:
    آپ کی حیات باوقار ہمیں سبق دیتی ہے اسلام اور دین دشمن عناصر کے مقابلے میں غیرت دینی اور حمیت ایمانی کا۔۔۔۔۔۔ آزمائشوں اور صبر آزما مراحل میں اولوالعزمی، ثبات قدمی اور جانثاری کا۔۔۔۔۔۔ بے ضرر عوام اور خلقِ خدا کے مقابلے میں محبت، خدمت اور ان کی فلاح و بہبود کا۔۔۔۔۔۔ اور علم دین کے لیے نت نئے منصوبوں اور سدا بہار کارناموں کا۔
    اﷲ جل شانہ سے اس کی صفت رحمانیت کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے اسلاف کے نقش پا پر عمل کرنے کی توفیق وافر نصیب فرمائے کہ علم بلا عمل تو انسان کے ازلی دشمن ابلیس کو بھی حاصل ہے۔ اسلاف تیزی سے اٹھتے تو جارہے ہیں لیکن ان کا طریقہ حیات ہمارے پاس موجود ہے۔ یاد رکھئے! اسلاف اپنے گزرے ہوئے اسلاف کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ہی اسلاف بنتے ہیں۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی!!!
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے!
تحریر: مفتی انس عبدالرحیم 

اپنا تبصرہ بھیجیں