پیشاب کی دائمی عذر کی وجہ سے نماز اور وضو کا حکم

سوال: مفتی صاحب ایک شخص ہے جس کی پیدائش کے فورا بعد ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن ہوا تھا جس کی وجہ سے ان کے بڑے پیشاب اور چھوٹے پیشاب کی محسوس کرنے والی رگ ڈیمیج ہوگئی تھی۔ 

تو ان کو پتہ نہیں چلتا تھا اور پیشاب نکلتا رہتا تھا ۔

اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور دعاؤں کے ساتھ کبھی کبھی محسوس ہو جاتا ہے ۔ اور پیشاب آنے کا اور کبھی رک جاتا ہے لیکن زیادہ تر پیمپر ہی استعمال ہوتا ہے اور نماز کے دوران بھی نکل جاتا ہے۔

اور گیس پاس ہو جاتی ہے تو کبھی تو ایک نماز میں دو تین بار بھی وضو کرنا پڑ جاتا ہے اور کبھی ایک نماز پوری نماز کا وقت گزر جاتا ہے اور یورین پاس نہیں ہوتا ؟

تو کیا یہ معذور کے حکم میں ہے؟

اور ان کی نماز میں وضو کا کیا حکم ہوگا؟

الجواب باسم ملھم الصواب

کوئی شخص معذور اس وقت بنتا ہے جب اس پر نماز کا ایک مکمل وقت اس حال میں گذر جائے کہ اس کو اتنا بھی وقت نہ ملے کہ طہارت کے ساتھ صرف فرض نماز ادا کر سکے اور پھر ایک دفعہ معذور کا حکم لگنے کے بعد اس وقت تک معذور رہتا ہے جب تک کہ ایک نماز کا مکمل وقت اس حال میں نہ گذرے کہ جس میں وہ عذر ایک بار بھی نہ پایا جائے۔

سوال میں مذکورہ صورت ایک مشکل صورت ہے۔ جیسا کہ آپ نے ذکر کیا کہ جب عذر لاحق ہوتا ہے تو ایک نماز میں دو تین دفعہ وضو کرنا پڑتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ ایک نماز کا مکمل وقت عذر کی حالت میں گزرچکا ہے، لہذا غور وفکر کریں۔ اگر غالب گمان یہ ہو کہ پنج وقتہ نمازوں میں سے کوئی بھی وقت مکمل اس حالت میں گزرا ہے جس میں پاکی کے ساتھ فرض نماز نہ پڑھ پائے ہوں تو وہ معذور بن چکے ہیں اس کے بعد یہ سوچیں کہ ایک بار معذور بننے کے بعد سے اب تک کیا کسی نماز کا پورا وقت بغیر اس عذر کے گزرا ہے چاہے پورے وقت میں صرف ایک بار عذر لاحق ہوا ہو ، چنانچہ اگر ابھی تک یہی صورت حال ہو کہ نماز کے پورے وقت میں کم از کم ایک بار بھی مذکورہ عذر لاحق ہوجاتا ہے تو ابھی تک معذور ہی ہیں ۔

اب معذور کے حکم سے نہ نکلنے کے لیے یہ حیلہ کیا جا سکتا ہے کہ اگلے وقت میں وہ ایک دفعہ خود پیشاب سے فراغت حاصل کرلیا کرے تاکہ اس وقت میں ایک دفعہ وہ عذر ضرور پایا جائے اور وہ معذور کے حکم سے نہ نکل سکے۔

تاہم ان کا عذر چونکہ دائمی ہے لہذا ہم یہ تجویز کرتے ہیں کہ کسی بڑے دار الافتاء سے رجوع کر کے مسئلہ پوچھ لیا جائے۔

==================

“ثم ان الحدث ان استوعب وقت صلاة ،بأن لم يوجد فيه زمان خال عنه يسعى الوضوء والصلاه، يسمى:” عذرا” وصاحبه “معذورا “و “صاحب العذر”و

حكمه أن لاينتقض وضوؤه من ذلك الحدث بتجدده، إلا عند خروج وقت مكتوبة……..وإن عاده قبل خروج الوقت الثاني لايعيد, ولو عرض بعد دخول الوقت فرض انتظر الى آخره، فان لم ينقطع يتوضأ ويصلي، ثم ان انقطع فى اثناء الوقت الثاني يعيد تلك الصلاة،وان استوعب الوقت الثاني لايعيد, لثبوت العذر حينئذ من ابتداء العروض.”

(ذخر المتاهلين في مسائل الحيض,ص: ١٠٥-١٠٨)

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں