قرض دی ہوئی رقم پر زکوة کا حکم

مسئلہ ہے زکوة کے حوالہ سے وہ اس طرح کہ اگر کوئی شخص کاروبار کرتا ہے قسطوں کا اور اس کے لوگوں پر پیسے ہیں۔ اب وہ لوگ پیسے نہیں دے رہے اور اس شخص کو زکوة دینی ہے تو اب اس کا کاروبار ہے مثال کے طور پر 7 لاکھ کا 3 لاکھ لوگ نہیں دے رہے تو اب وہ شخص 7 لاکھ کے حساب سے زکوة دے؟

الجواب باسم ملهم الصواب

جو رقم لوگوں کے ذمے دینا واجب ہو تو اس پر(قرض دینے والے پر) زکوة دینی لازم ہوتی ہےبشرطیکہ وہ تنہا یا باقی موجود رقم یا سونا چاندی یا مال تجارت کے ساتھ مل کر نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہو۔ البتہ اگر اس رقم کی وصولیابی ممکن نظر نہ آتی ہو تو جب تک رقم وصول نہ ہو اس وقت تک زکوة کی ادائیگی موخر کی جاسکتی ہے۔ لیکن رقم وصول ہونے کے بعد پچھلے تمام سالوں کی زكوة نکالنا واجب ہو گی۔ اور اگر پیشگی اس رقم کی زکوة نکال دے تو یہ بھی جائز ہے ۔
لہذا صورت مسئولہ میں یہ شخص چاہے تو 7 لاکھ کی زکوة نکال دے اور اگر ادائیگی ممکن نظر نہیں آتی تو فی الحال 4 لاکھ کی زکوة نکال دے۔ لیکن بقیہ 3 لاکھ کی زکوة پچھلے تمام سالوں کے حساب سے( جن میں ان کی زکوة نہیں دی) ادائیگی کے بعد نکالنا لازم ہو گا۔

حوالہ جات:
1۔(وَ) اعْلَمْ أَنَّ الدُّيُونَ عِنْدَ الْإِمَامِ ثَلَاثَةٌ: قَوِيٌّ، وَمُتَوَسِّطٌ، وَضَعِيفٌ؛ (فَتَجِبُ) زَكَاتُهَا إذَا تَمَّ نِصَابًا وَحَالَ الْحَوْلُ، لَكِنْ لَا فَوْرًا بَلْ (عِنْدَ قَبْضِ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا مِنْ الدَّيْنِ) الْقَوِيِّ كَقَرْضٍ (وَبَدَلِ مَالِ تِجَارَةٍ) فَكُلَّمَا قَبَضَ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا يَلْزَمُهُ دِرْهَمٌ (وَ) عِنْدَ قَبْضِ (مِائَتَيْنِ مِنْهُ لِغَيْرِهَا) أَيْ مِنْ بَدَلِ مَالٍ لِغَيْرِ تِجَارَةٍ وَهُوَ الْمُتَوَسِّطُ كَثَمَنِ سَائِمَةٍ وَعَبِيدِ خِدْمَةٍ وَنَحْوِهِمَا مِمَّا هُوَ مَشْغُولٌ بِحَوَائِجِهِ الْأَصْلِيَّةِ كَطَعَامٍ وَشَرَابٍ وَأَمْلَاكٍ.
وَيُعْتَبَرُ مَا مَضَى مِنْ الْحَوْلِ قَبْلَ

قَوْلُهُ: عِنْدَ الْإِمَامِ) وَعِنْدَهُمَا الدُّيُونُ كُلُّهَا سَوَاءٌ تَجِبُ زَكَاتُهَا، وَيُؤَدِّي مَتَى قَبَضَ شَيْئًا قَلِيلًا أَوْ كَثِيرًا
——–
ص305 ۔ كتاب حاشية ابن عابدين رد المحتار ط الحلبي – باب زكاة المال ۔
——–
والله تعالى أعلم بالصواب

17 جمادی الثانی 1440ھ
10 جنوری 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں