صدقے میں جان کا بدلہ جان(جانور کے ذبح) سےدینا

سوال:السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔

السلام علیکم باجی! آپ سے ایک مسئلہ پوچھنا ہے کیا جان کے بدلے میں جان کا صدقہ دے سکتے ہیں مثلا بکری یا مرغی وغیرہ آپ اس مسئلہ کی رہنمائی فرما دیں؟

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!

”اللہ کی راہ میں ،اللہ کی رضا کے لیے کوئی چیز خرچ کرنا “ صدقہ کہلاتا ہے،صدقہ مصیبتوں اور بلاؤں کو ٹالنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے اور نعمت کے شکرانے کے طور پر بھی ۔

بہترین صدقہ وہ ہے جو مستحق کے حال کے مطابق ہو،مثلاً: مستحق کو رقم کی ضرورت ہے تو رقم دینا،لباس،کھانا، غرض جو مطلوب ہے اس کے مناسب مستحق کی ضرورت پوری کرنا بہترین صدقہ ہے۔

اگر غریبوں کو گوشت کی ضرورت ہوتو جانور کو ذبح کر کے اس کا گوشت بھی صدقہ کیا جاسکتا ہے ۔لیکن اس نیت سے جانور ذبح کرنا کہ یہ “جان کے بدلے جان کا صدقہ ہے“ جیسے آج کل لوگ بالخصوص کالا بکرا ذبح کرکے جان کے بدلے جان کا فدیہ سمجھتے ہیں تو یہ عقیدہ غلط ہے اور ہندوانہ اثر ہے۔

لیکن اگر جانور ذبح کرنے سے مقصود خون بہانا نہیں بلکہ مساکین کی ضرورت پوری کرنا ہے،تو اس نیت سے جانور قربان کرنا جائز ہے۔

چنانچہ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

”زندہ جانور صدقہ کردینابہتر ہے،شفائے مریض کی غرض سے ذبح کرنا اگر محض لوجہ اللہ(رضائے الہی کے لیے)ہوتومباح تو ہے ، لیکن اصل مقصد بالاراقۃ(خون بہانے سے )صدقہ ہوناچاہیے نہ کہ فدیہ جان بجان”۔(کفایت المفتی :۸/۲۵۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ الصَّدَقَۃَ لتطفئی غَضَبَ الرَّبِ وَتَدْفَعُ مِیَّۃَ السُّوء۔(جامع الترمذی :۶۶۴)

(۲) يستحب أن يتصد ق بما تيسر، ولا يستقله، ولا يمتنع من الصدقة به لقلته وحقارته، فإن قليل الخير كثير عند الله تعالى، وما قبله الله تعالى وبارك فيه، فليس هو بقليل (١)، قال الله تعالى: {فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره} [الزلزلة:٧/ ٩٩]، وفي الصحيحين عن عدي بن حاتم: «اتقوا النار ولو بشق تمرة» وفي الصحيحين أيضا عن أبي هريرة: «يا نساء المسلمات لا تحقرن جارة أن تهدي لجارتها ولو فرسن شاة» والفرسن من البعير والشاة كالحافر من غيرهما. وروى النسائي وابن خزيمة وابن حبان عن أبي هريرة: «سبق درهم مئة ألف درهم، فقال رجل: وكيف ذاك يا رسول الله؟ قال: رجل له مال كثير أخذ من عرضه – جانبه- مئة ألف درهم تصدق بها، ورجل ليس له إلا درهمان، فأخذ أحدهما، فتصدق به(الفقہ الاسلامی و ادلتہ:۳/۲۰۵۶ ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم بالصواب

۱۸ صفر ۱۴۴۳ھ

۲۶ ستمبر۲۰۲۱ء

اپنا تبصرہ بھیجیں