سائنسی تحقیق، عصری علوم اور دینی مدارس

Scientific Research, Modern Education, and Madaris
تحریر و تخریج: ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی
گزشتہ دو صدیوں سے سائنسی ایجادات نے جتنی ترقی کی ہے وہ ہم سب کے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے اوریہ سائنسی ایجادات ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتیں ہیں۔ سیٹلائٹ کی مدد سے زمین پر اناج کی پیداوار کی تخمینہ لگانا ہو یا زمین کے اندر چھپے معدنی خزانوں (پیٹرول، گیس، لوہا، سونا، چاندی) کی نشاندہی ہو، آج یہ سب کچھ ہمیں اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ سائنس افسانوں سے نکل کر ہماری حقیقی زندگی کے اندر اتنی شامل ہوگئی ہے کہ ہم اگر سفر میں کوئی راستہ تلاش کرنا چاہیں یا کسی نزدیکی بستی کے اندر کسی دکان کی معلومات نکالنا ہوں، یہ سب ہم چند سیکنڈوں کے اندر کر گزرتے ہیں۔ مائیکرو پروسیسر اور کمپیوٹر کے میدان میں سائنسی ایجادات نے ہماری معلومات تک رسائی کو ممکن بنا دیا ہے۔ گھر بیٹھے ایک شخص سیکنڈوں کے اندر آکسفورڈ یونیورسٹی میں رکھے صدیوں پرانے مسوادات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ بات صرف یہاں پر ہی ختم نہیں ہو گئی بلکہ اب Tactile Internet کی مدد سے محسوسات کو منتقل کرتے ہوئے ریموٹ سرجریز و آپریشن پایہ تکمیل تک پہنچائے جارہے ہیں[1]۔ ان سب سائنسی ایجادات اور ترقی کے پیچھے جو چیز کارفرما ہے وہ تحقیق (ریسرچ) ہے۔ یہ تحقیق (ریسیرچ) ہی ہے جس کی وجہ سے یہ سائنسی ایجادات اپنے آئیڈیاز سے لے کر کام کرنے کی شکل تک ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔
معیاری سائنسی تحقیق
سائنسی تحقیق (ریسیرچ) اگر معیاری ہو تو جو تحقیقی مقالات Research Articles اور حقِ سند ایجاد Patents وجود میں آتے ہیں وہ بھی اعلیٰ معیار کے ہوتے ہیں اور اس سے سائنسی معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اور اس سے جو آخری پروڈکٹ Technology انسانوں کے سامنے آتی ہے وہ بھی معیاری قسم کی ہوتی ہے۔اور اگر یہ سائنسی تحقیق معیاری نہ ہو تو نہ صرف یہ کہ اس سےقیمتی وسائل ضائع ہوتے ہیں بلکہ انسانیت کو بھی ایسی سائنسی تحقیق سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔غرض سائنسی تحقیق کا معیاری ہونا بہت ضروری ہے۔ پچھلی صدی کے اندر سائنس اور سائنسی تحقیق کے اندر بہت زیادہ ترقی ہونے کی وجہ سے سائنسی تحقیق کے معیار کو جانچنے نے بھی باقائدہ ایک سائنسی شعبے اور فن کی شکل اختیار کر لی ہے۔ یہ سائنسی شعبہ یا فن ببلیومیٹرکس Bibliometricsکے نام سے جانا جاتا ہے جس میں اس بات کا طریقہ متعین کیا جاتا ہےکہ ایک سائنسی تحقیق کو ہم کیسے جانچیں گےاور کس سائنسدان کی تحقیق کا کیا معیار ہے۔ببلیومیٹرکس Bibliometricsکا شعبہ اصل میں Library and Information Scienceکی شاخ کے اندر آتا ہے اور اس کا بنیادی مقصد سائنسی تحقیق اور سائنسدانوں کی ریسرچ کے معیار کو جانچنا ہے۔اسی طرح سے سائنسی معیار کو جانچنے اور اس کو آگے ترقی دینے اور بڑھانے کیلئے باقائدہ یونیورسٹیوں کے ڈیپارٹمنٹ وجود میں آچکے ہیں جو کہ اس موضوع پر تحقیق بھی کروارہے ہیں اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی تفویض کررہے ہیں۔ نیز ان سائنسی تحقیقات کے معیار کوپرکھنے کیلئے اور سائنسی تحقیق کے معیار کو بہتر سے بہتر بنانے کیلئے ریگولیٹری ادارے بھی معرضِ وجود میں آچکے ہیں۔اسی طرح سےعالمی سطح کی معیاری تحقیق کرنے پر ایوارڈز بھی دئیے جاتے ہیں جن میں سے چند مشہور یہ ہیں: نوبل پرائز[2] Nobel Prize ، ٹیورنگ ایوارڈ Turing Award [3] ، فیلو آف رائل سوسائٹی Fellow of the Royal Society، آئی ای ای ای کی فیلوشپ[4] IEEE Fellow ، اے سی ایم کی فیلوشپACM Fellow ، Highly Cited Researcher [5]وغیرہ۔اس کے علاوہ اور بھی مختلف ایوارڈز ہیں جو کہ مختلف سائنسی شعبوں کے اندر دئیے جاتے ہیں۔
پاکستان کی جامعات اور ان میں ہونے والی تحقیق کا حال
اب اگر ہم سائنسی تحقیق، ایجادات اور ایوارڈز کی بات کریں تو عمومی طور پر اسلامی ممالک کے اندر سائنسی تحقیق کا معیار اتنا اعلی نہیں ہے۔ بالخصوص اگر ہم اپنے پیارے ملک پاکستان کی بات کریں تو سائنسی دنیا کے اندر پاکستان عمومی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں ہونے والی تحقیق سے بہت پیچھے ہے۔ یہ بات مبالغہ پر مبنی نہیں ہے بلکہ ہم شواہد کی بنیاد پر آپ کے سامنے یہ حقائق رکھ رہے ہیں۔ پاکستان کی جامعات اور ان میں ہونے والی تحقیق کی زبوں حالی کی بنیادی حقیقت کو سمجھنے کیلئے ہمیں کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اگر ہم سائنسی شماریاتی اداروں کی رپورٹ پڑھ لیں تو یہ بات ہم پر عیاں ہو جائے گی کہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی جامعات اور ان میں ہونے والی تحقیق کا کیا حال ہے۔ سائنسی شماریاتی اداروں یعنی جامعات کی عالمی رینکنگ کرنے والے اداروں (دیکھیئے ٹیبل نمبر ۱) کی جانب سے جو ڈیٹا فراہم کیا گیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی پانچ سو بہترین جامعات کے اندر محض پاکستان کی ایک یا دو جامعات اپنا نام بنا پائیں ہیں۔
جامعات کی عالمی رینکنگ کرنے والے اداروں کے نام
ملٹی رینکMultirank
https://www.umultirank.org

ٹائمز ہائیر ایجوکیشن ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ Times Higher Education World University Ranking
https://en.wikipedia.org/wiki/Times_Higher_Education_World_University_Rankings

قیو ایس ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ QS World University Rankings
https://en.wikipedia.org/wiki/QS_World_University_Rankings

شینگھائی رینکنگShanghai Ranking – Academic Ranking of World Universities
https://www.shanghairanking.com/rankings/arwu/2020

ٹیبل نمبر ۱: جامعات کی عالمی رینکنگ کے ادارے
جامعات کی عالمی رینکنگ کے ادارے بہت سارے عوامل کو دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس جامعہ کا کون سا عالمی درجہ ہوگا۔ ان عوامل کے اندر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جامعات کے اندر تحقیق کس معیار کی ہورہی ہے؟ ان کے اندر تدریس کا کیا معیار ہے؟ ان جامعات کے انڈسٹری کے ساتھ کتنا اشتراک ہے اور انڈسٹری کی جانب سے ان جامعات کو کتنی فنڈنگ دی جارہی ہے؟ نیز ان جامعات کے اندر کتنے نوبل انعام یافتہ سائنسدان اور محقیقین ہیں اور کتنے Highly Cited Researcher ہیں؟ اس کے علاوہ ان جامعات کے کتنے فارغ وتحصیل طلباء کو نوبل انعام ملا ہے؟ مزید براں یہ کے ان جامعات کے اندر ہونے والی تحقیق سے انسانیت کو کتنا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ اس کے علاوہ اسٹوڈنٹ فیکلٹی (طلباء اساتذہ) تناسب کیا ہے؟ دوسرے ممالک کے کتنے طلباء ان جامعات کے اندر تعلیم حاصل کررہے ہیں؟ ٹیبل نمبر ۲ کے اندر ہم نے دو جامعات کی عالمی رینکنگ کے اداروں کا تقابلی جائزہ پیش کیا ہے جس کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جامعات کی عالمی درجہ بندی ایک سائنسی طریقے سے ہوتی ہے جس کے اندر مختلف عوامل کو وزن دیا جاتا ہے تاکہ جامعات کے معیار کو جانچا جا سکے۔
ٹائمز ہائیر ایجوکیشن ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ
Times Higher Education World University Ranking
https://en.wikipedia.org/wiki/Times_Higher_Education_World_University_Rankings
شینگھائی رینکنگ
Shanghai Ranking Academic Ranking of World Universities
https://www.shanghairanking.com/rankings/arwu/2020

ایجوکیشن کوالٹی – نوبل انعام یافتہ طلباء 10% انڈسٹری سے آمدن 2.5%
تدریسی عملہ جس کو بوبل انعام ملا ہو 20% طلباء اور استاذہ میں عالمگیریت 5%
Highly Cited Researchers 20% تدریس (پی ایچ ڈی، طلباء کی تعداد وغیرہ) 30%
نیچر اور سائنس میں تحقیقی مقالاجات 20% تحقیق (تحقیقی مقالاجات، تحقیق سے آمدن وغیرہ) 30%
تحقیقی مقالاجات جو کہ ایس سی آئی ای انڈیکس ہوں 20% تحقیق کا اثر Citations 32.5%
Per capita academic performance 10% ٹوٹل 100%
ٹوٹل 100%
ٹیبل نمبر۲: جامعات کی عالمی رینکنگ کے اداروں کا تقابلی جائزہ اورمعیار و کارکردگی کے مختلف عوامل کو وزن دینے کا تناسب
اگر ہم پاکستان کی جامعات اور یہاں پر ہونے والی سائنسی تحقیق کے معیار و کارکردگی کو جانچنا چاہتے ہیں تو ہمیں بین الاقوامی تسلیم شدہ پیمائش performance metrics کے اصولوں کو مدِ نظر رکھنا ہوگا اور ایسے معیارات standards کو اختیار کرنا ہوگا جن کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے۔ نیز یہ معیارات ایسے ہوں جن کی پیمائش بھی ممکن ہو۔ مثلاً اگر ہمیں اس بات کا معیار جانچنا ہے جامعات اور انڈسٹری میں کتنا تعاون ہو رہا ہے تو ہم یہ دیکھیں گے کہ انڈسٹری جامعات کو کتنا معاشی تعاون کررہی ہیں اور اس سلسلے میں کتنی فنڈنگ کا اجراء کرچکی ہیں۔ اس کیلئے جو عالمی سطح پر پیمانہ متعین کیا گیا ہے کہ وہ یہ ہے کہ فی کس سائنسدان اپنی جامعہ میں انڈسٹری سےکتنی فنڈنگ لا رہا ہے تاکہ تحقیق و تدریس کو فروغ دیا جاسکے۔ اسی طریقے سے ہم نے دیکھا کہ عالمی سطح پر جو جامعات کی عالمی رینکنگ کی جاتی ہے اور ان کا معیار اور کارکردگی جانچی جاتی ہے اس کے اندر مختلف کارکردگی کی پیمائشی طریقوں کو تسلم کیا جاتا ہے جن کو ہم نے ٹیبل نمبر۲ میں بیان کردیا ہے۔اب ہم ان عالمی معیارات کو سامنے رکھ کر بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ عالمی سطح پر پاکستان کی جامعات اور ان کے اندر ہونے والی تحقیق کا کیا معیار ہے، نیز سائنسی تحقیق کے اندر ان کی کارکردگی کیا ہے۔
نوبل پرائز، دنیا کے ایک فیصد بہترین سائنسدان اور پاکستان کا اس میدان میں موازنہ
اب ہم دو مختلف عالمی تسلیم شدہ پیمانوں Nobel Prize اور Highly Cited Researcher کی مدد سے پاکستان کی جامعات کی کارکردگی اور ان میں ہونے والی تحقیق کے معیار کی پیمائش کرتے ہیں۔نوبل پرائز مختلف شعبہ جات مثلاً طبیعات، کیمیا، طب، لٹریچر، امن، اکنومکس وغیرہ میں دیا جاتا ہے۔ چونکہ ہم سائنس کی بات کررہے ہیں تو ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ سائنس کے شعبہ جات کے اندر پاکستان کی جامعات میں کام کرنے والے کتنے سائنسدانوں کو نوبل پرائز دیئے گئے ہیں اورپاکستان کی کارکردگی اس ضمن میں کیا ہے۔ کیا پاکستان کی جامعات، قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک کوئی ایسی تحقیق کرسکیں جس کی بنیاد پر ان جامعات میں کام کرنے والے سائنسدانوں اور پروفیسرز حضرات کو عالمی سطح پر مانا گیا ہو اور ان کوسائنس کے شعبہ جات کے اندر پاکستان کے اندر تحقیق کی بنیاد پر نوبل پرائز کے انعام سے نوازا گیا ہے؟ ۱۹۰۱ سے لے کر ۲۰۲۰ تک مجموعی طور پر ۶۰۳ نوبل پرائز ۹۶۲ شخصیات کو دیا جاچکا ہے جن میں طبیعات Physics میں ۱۱۴، کیمیا Chemistry میں ۱۱۲،طب Medicine میں ۱۱۱ نوبل انعام دئیے جاچکے ہیں اوردنیا کے چار ممالک امریکہ، برطانیہ، جرمنی،اور فرانس ، وہ ممالک ہیں جن کے سائنسدانوں کے پاس سب سے زیادہ نوبل پرائز ہیں [6,7]۔اس سارے موازنے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم نوبل پرائز کے معیار پر کتنے پیچھے ہیں۔
مختلف ممالک کے اندر دنیا کے ایک فیصد بہترین سائنسدانوں کی تعداد
امریکہ 2650
چین 770
برطانیہ 514
جرمنی 345
ٹیبل نمبر ۳: دنیا کے ایک فیصد بہترین سائنسدانوں کی تعداد مختلف ممالک کے اندر مجموعی طور پر
دوسرا پیمانہ یعنی ”دنیا کے ایک فیصد بہترین سائنسدان“Highly Cited Researcher کے تناظر میں پاکستان کی جامعات اور ان کے اندر ہونے والی تحقیق کی صورتِ حال بھی کچھ حوصلہ افزاء نہیں۔ صرف طبیعات Physics کے شعبہ کے اندر کُل ۱۷۹ سائنسدانوں میں پورے پاکستان کا ایک بھی سائنسدان ”دنیا کے ایک فیصد بہترین سائنسدان“ Highly Cited Researcher کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ اس کے بالمقابل اگر ہم امریکہ، چین، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر ممالک کی بات کریں تو وہاں پر مختلف سائنسی شعبہ جات کے اندر ”دنیا کے ایک فیصد بہترین سائنسدانوں“ کی بھرمار ہے (دیکھیے ٹیبل نمبر ۳)۔ اگر ہم جامعات کے حساب سے بات کریں تو اکیلے ہارورڈ یونیورسٹی Harvard University کے اندر ۱۸۸، اسٹینفورڈ یونیورسٹی Stanford University کے اندر ۱۰۶، آکسفورڈ یونیورسٹی University of Oxford کے اندر ۵۲ اور کیمبرج یونیورسٹی University of Cambridge کے اندر ۴۶ ”دنیا کے ایک فیصد بہترین سائنسدان“ مختلف سائنسی شعبہ جات کے اندر موجود ہیں [8]۔ اس کے علاوہ اگر دیگر ایوارڈز دیکھے جائیں تو پاکستان کے پاس نہ ہی کوئی IEEE Fellow ہے اور نہ ہی ACM Fellow ہے۔
آبادی کے تناسب سے پاکستان کی سائنسی دنیا میں کارکردگی
آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو سائنسی دنیا کے اندر ہماری کارکردگی قابلِ ستائش نہیں ہے اور یہی حال کچھ ہماری جامعات کے اندر ہونے والی سائنسی تحقیق کا بھی ہے۔اگر ہم پاکستان سے کئی گنا چھوٹے ملک آئرلینڈ کا جائزہ لیں تو آئرلینڈ کی کُل آبادی پاکستان کے شہر کراچی سے بھی کم ہے مگر اس کے برعکس اس کے پاس کئی نوبل پرائز ونر ہیں، اور ۳۳ ”دنیا کے ایک فیصد بہترین سائنسدان“ کا ٹائٹل ملنے والے سائنس دان بھی موجود ہیں۔ جامعات کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو آئرلینڈ کے پاس ۲۰ کے قریب جامعات ہیں مگر ان میں تحقیق کا معیار اتنی اعلیٰ قسم کا ہےکہ وہ دنیا کے ۲۰۰ بہترین جامعات کے اندر اپنا نام بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اسی تناظر میں اگر میں پاکستان کی جامعات کی تعداد دیکھیں تو پاکستان میں ۲۲۹ پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر جامعات موجود ہیں (ایچ ای سی کی ویب سائٹ کے مطابق: جولائی ۲۰۲۱)۔ نیز اگر ہم ان جامعات کے اندر اساتذہ کی تعداد دیکھیں تو وہ کُل ۴۷۳۹۳ ہے جس میں سے ۱۴۶۱۴ پی ایچ ڈی حامل اساتذہ ہیں یعنی ۳۵۲۴ خواتین پی ایچ ڈی اساتذہ کی تعداد ہے اور ۱۱۰۹۰ مرد پی ایچ ڈی اساتذہ کی تعداد ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کی جامعات کے اندر تقریباً ۳۰ فیصد اساتذہ پی ایچ ڈی ڈگری کے حامل ہیں۔ نیز پاکستان کی ایک ایسی جامعہ، کامسیٹس یونیورسٹی، بھی ہے جس کے پاس ایک ہزار سے زیادہ پی ایچ ڈی اساتذہ کی تعداد ہے[9] ۔ چونکہ ابھی ہمارا موضوع پاکستان میں سائنسی تحقیق کے گرتے ہوئے معیار کے سدِباب پر تجاویزات دینا نہیں لہذا ہم اس سے احتراز کرتے ہوئے اپنے موضوع پر رہتے ہیں۔ ان سب تفصیلات جاننے کے بعد ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے اندر سائنسی تحقیق کا معیار عالمی سطح کا نہیں ہے۔ نیز پاکستان کی جامعات بھی عالمی سطح پر اپنا لوہا نہیں منوا سکیں۔اور سونے پر سہاگہ یہ کہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد سے لے کر اب تک ہم اجتماعی سطح پر بہترین سائنسدانوں کی کھیپ تیار نہیں کرسکے۔ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ انفرادی سائنسدان ابھی بھی پاکستان میں موجود ہیں جو کہ پوری جان لگا رہے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستانی سائنسدان عالمی اداروں میں بھی گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
دینی مدارس ، عصری علوم اور سائنسی تحقیق
اس تمام تناظر کے اندر اگر ہم دینی مدارس کو دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کچھ دینی مدارس نے عصری علوم کے اندر بھی رسوخ پیدا کرنا شروع کردیا ہے۔ اس ضمن میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی تعلیم لازمی قرار دے دی گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وفاق المدارس کے قائدین اور اکابر علمائے کرام کی کوششوں سے حکومتِ پاکستان (ہائیر ایجوکیشن کمیشن) کی جانب سے درسِ نظامی مکمل کرنے والے علماء کی تعلیمی اسناد کو ماسٹرز کے مقابل سمجھا جانے لگا ہے۔ نیز کچھ مدارس خاص طور پر ایسے رجالِ کار تیار کررہے ہیں جو کہ عصری علوم میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ ا س کے ذیل میں جامعۃ دارالعلوم کراچی، جامعۃ الرشید، جامعہ بنوریہ عالمیہ، اور دیگر مدارس قابلِ ذکر ہیں۔ نیز مدارس کے اکابرین نے دینی رجالِ کار عصری اداروں کو فراہم کرنے کیلئے اسکولوں کا نظم بھی بنایا ہے جن میں حرا فاؤنڈیشن اسکول بھی ہے جو کہ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی زیر پرستی چل رہا ہے جب کہ اقراء روضۃ الاطفال بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔انہی کاوشوں میں ایک کلیۃ الشریعہ بھی ہے جس کا مقصد عصری علوم یافتہ طلباء کودینی تعلیم سے بہرہ ور فرماکر انہیں ان ہی کے شعبوں اور عصری علوم کے اداروں میں خدمت پر مامور کرنا ہے تاکہ وہ عصری علوم کے اداروں کے اندر دینی رجحان والے رجال کار تیار کرسکیں۔
علمائے کرام کا عصری علوم بالخصوص سائنسی تحقیق اور پی ایچ ڈی PhD کی طرف راغب ہونا
اس سلسلے کی ایک کڑی یہ ہے کہ جو علمائے کرام درسِ نظامی اور تخصص سے تکمیل حاصل کررہے ہیں ان میں سے کچھ حضرات عصری جامعات کا بھی رخ کررہے ہیں تاکہ وہاں سے ایم فل MPhil اور پی ایچ ڈی PhD کی ڈگریاں حاصل کرسکیں۔ اور مشاہدے میں یہ بات آرہی ہے کہ ان کی تعداد میں روزبرز اضافہ بھی ہوتا جارہا ہے۔مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے یہ سارے فارغ التحصیل علمائے کرام اور مفتیان کرام جو کہ تحقیق کیلئے جن عصری جامعات کا رخ کررہے ہیں تاکہ وہ پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کرسکیں وہ ہماری پاکستان کی ہی جامعات ہیں اور جیسا کہ اوپر عرض کیا جاچکا کہ عالمی سطح پر پاکستان کی جامعات اور ان میں ہونے والی تحقیق کا معیار وہ نہیں ہے جو کہ ترقی یافتہ مما لک کا ہے لہذا سب سے بڑا مسئلہ یہ پیش آئے گا کہ کس طریقے سے وہ سائنسی استعداد اور قابلیت بنائی جائے جو کہ عالمی سطح پر معیاری سائنسی تحقیق کیلئے درکار ہے۔ نیز یہ مسئلہ صرف علمائے کرام یا مفتیان کرام تک ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ جو بھی طالبعلم ان پاکستانی عصری جامعات سے پی ایچ ڈی ڈگری کا حصول کر ے گا اُس کو یہ مسئلہ درپیش آئے گا۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ محض ڈاکٹر کا ٹائٹل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کا حصول مقصود نہ ہو بلکہ سائنسی استعداد اور قابلیت بڑھانے پر توجہ دی جائے تاکہ عالمی معیار کی تحقیق کی جاسکے اور سائنسی میدان میں ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ کیا جاسکے۔
کیا دینی مدارس کا مقصد سائنسی تحقیق کروانا ہے؟
جس طرح میڈیکل کالج کا مقصد طب کی تعلیم دینا ہے، انجینئرنگ یونیورسٹی کا مقصد انجینئرنگ کی تعلیم دینا ہے، لاء کالج کا مقصد قانون کی تعلیم دینا ہے بعینہ اسی طرح دینی مدارس کا مقصد دینی علوم کی تعلیم دینا ہے تاکہ علماء کی ایک معتدبہ تعداد معاشرے کی ضرورت کیلئے تیار ہوسکے اور جو اپنا تن من دھن لگا کر دین کی خدمت کرسکیں۔پھر دینی علوم کے اندر شعبہ جات اتنے سارے ہیں کہ اس چھوٹی سی زندگی کے اندر تمام شعبہ جات کے اندر مہارت حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اسی واسطے دینی مدارس کے اندر مختلف تخصصات موجودہیں۔ پھر ان تخصصات کے بعد بھی علم میں رسوخ حاصل کرنے کیلئے ایک لمبی عمر درکار ہے۔ اور بات صرف دینی علوم تک محدود ہوتی تو ٹھیک مگر دینی علوم اور مدارس کے اندر تقویٰ اور للہیت کی لائن سے بھی بہت سارے میدان ہیں جن کو طلباء نے سر کرنا ہوتا ہے اور پھر کہیں جا کر ایک راسخ العقیدہ عالم اور مفتی تیار ہوتا ہے۔
اگر ہم مروجہ درسِ نظامی کے نصاب کو دیکھیں تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ پوری تندہی، خلوص اور لگن کے ساتھ ۸ سے ۱۰ سال لگانے کے بعد دینی علوم کے اندر استعداد پیدا ہوتی ہے۔بعینہ یہی صورتِ حال عصری علوم اور تحقیق کرنے والوں کو بھی پیش آتی ہے۔ اب چونکہ دینی مدارس کا مقصد دینی علوم کی استعداد پیدا کرنا ہوتا ہے تو طالبعلم طب، کیمیا، قانون، ریاضی، اور دیگر سائنسی علوم میں مہارت حاصل نہیں کرسکتا۔ ہاں البتہ بنیادی معلومات جو کہ عصری علوم کے طلباء کو بھی دی جاتی ہے ان علماء حضرات کو بھی ملتی ہے مگر یہ اتنی ہی واقفیت ہوتی ہے جتنی کہ ایک ڈاکٹر کو انجینئرنگ کے شعبے سے ہوتی ہے، یا ایک وکیل کو ریاضی سے ہوتی ہے یا ایک کیمیا دان کو کمپیوٹر سائنس کے شعبے سے ہوتی ہے۔ اب جس طریقے سے کسی وکیل سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ کوئی ویکسین ایجاد کرے گا، یا کسی کیمیا دان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ کمپیوٹر سائنس کے مشکل الگوریتھمز Algorithms ایجاد کرے گا بالکل اسی طریقے سے ایک عالمِ دین سے بھی یہ توقع نہیں لگائی جاسکتی کہ وہ سائنسی علوم میں مہارت حاصل کرے گا اور کوئی سائنسی تحقیق کرے گا۔ خلاصہ کلام اس ساری بات کا یہ ہے کہ دینی مدارس کا کام سائنسی تحقیق کروانا نہیں ہے۔
دینی علوم کے اندر علمائے کرام کا تحقیق اور پی ایچ ڈی کرنا
الحمدللہ وفاق المدارس اور اکابر کی کوششوں کی وجہ سے درسِ نظامی کے فاضل کو ماسٹرز کے مساوی ڈگری دی جاتی ہے ۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ یہ ماسٹرز کی ڈگری، ماسٹرز ان آرٹس Masters in Arts (M.A.) کی ڈگری ہوتی ہے جو کہ اپنے اندر چند اسلامی علوم کے تخصصات رکھتی ہے۔ مثلاً اسلامی تاریخ، فقہ، حدیث، تفسیر، علوم القرآن، عربی علوم، مختلف ادعیان کا تقابلی جائزہ، دعوۃ، سیرۃ، تصوف، فلسفہ و علم العقائد وغیرہ۔ پھر انہی مضامین اور تخصصات کی بنیاد پر یہ علمائے کرام انہی علوم کے اندر ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کاحصول کرتے ہیں اور اپنی تحقیق کو آگے بڑھاتے ہیں۔ مگر یہ تحقیق آرٹس کے مضامین سے متعلق ہیں نا کہ سائنس سے متعلق۔ اسی طریقے سے بہت سے علمائےکرام معاشیات اور مینجمنٹ سائنس کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے ان علوم کے اندر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں اور کچھ علمائے کرام نے صحافت اور ماس کمیونیکیشن یعنی ابلاغِ عامہ کو اپنا مطمح نظر بنایا اور ان مضامین میں پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کا حصول کیا۔نیز کچھ علمائے کرام قانون کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ایل ایل بی اور ایل ایل ایم کرتے ہیں۔ لہذا اس سے ہم یہ نتیجہ نہیں اخذ کرسکتے کہ یہ علمائے کرام سائنس کے علوم کے اندر تحقیق کررہے ہیں۔

علمائے کرام کا کوئی مسئلہ بتانے کیلئے سائنسدان بننا ضروری نہیں
یہ عام مشاہدہ ہے کہ جب کسی ایک شعبے کے ماہر کو کسی دوسرے شعبے کے ماہر کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ اس سے استفادہ حاصل کرتا ہے۔ مثلاً جب کسی مقدمے کے اندر جج اور وکیل حضرات کو سائبر سکیورٹی سے متعلق چیزوں کو سمجھنا ہوتا ہے تو وہ کمپیوٹر کے ماہر سے اپنی مطلوبہ معلومات لینے کے بعد فیصلہ کرتے ہیں۔ اسی طریقے سے جب کسی حکومتی وزیر کو کوئی پالیسی مرتب کرنی ہوتی ہے تو وہ متعلقہ شعبہ جات کے ماہرین سے رجوع کرنے کے بعد اپنی پالیسی مرتب کرتے ہیں۔ کہیں بھی یہ سوال نہیں ہوتا کہ وہ جج، وکیل یا حکومتی وزیر سب کچھ چھوڑ کر اس متعلقہ علم کو حاصل کرنے لگ جائے۔ بعینہ اسی طریقے سے دینی علوم کے ماہر حضرات یعنی مفتیان کرام جب کسی مسئلے سے متعلق کوئی معلومات لینا چاہتے ہیں تو مختلف شعبوں کے ماہرین سے معلومات لے کر شریعت کے احکامات بتا دیتے ہیں۔ جیسے اگر کسی چیز کی حلت و حرمت پر بات کرنی ہے تو پہلے مفتیان کرام متعلقہ فوڈ سائنس کے ماہرین اور کیمیکل انڈسٹری کے ماہرین سے معلومات لے کر اسلامی حکم بتا دیتے ہیں۔ اسی طریقے سے اگر کسی سائل کو کوئی مشکل معاشی مسئلہ پیش آتا ہے تو مفتیانِ کرام متعلقہ ماہرین سے رجوع کرنے کے بعد متعلقہ مسئلے کا حکم تفصیل کے ساتھ بیان فرمادیتے ہیں۔تو حاصل اس ساری بات کایہ ہے کہ علمائے کرام کا کسی مسئلے کو بتانے کیلئے ان علوم کا ماہر یعنی سائنس دان بننے کی ضرورت نہیں ہے۔
سائنسی تحقیق کے پیچھے مادیت جبکہ دینی تحقیق کے پیچھے دین کی خدمت کا جذبہ
مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ سائنسی تحقیق اور عصری علوم کی جامعات کے اندر اور بالخصوص پاکستان کی جامعات کے اندر طلباء کا ذہن اس طریقے سے بنایا جاتا ہے کہ اگر میڈیکل ڈاکٹر بنو گے، انجینئر بنو گے تو اچھی نوکری ملے گی، اور جب اچھی نوکری ملے گی تو تنخواہ اچھی ہوگی اور پھر سارے مسائل کا حل نکل آئے گا۔یعنی اساتذہ کرام سے لے کر طلباء تک، پورے نظام میں مادیت کی سوچ کارفرما ہے، الاماشاءاللہ۔ہونا تو یہ چاہیے کہ سائنسی تحقیق کے پیچے نیت انسانیت کی خدمت ہو اور سائنس تحقیق کی ترویج و اشاعت ہو اور اگر ہم دنیا کے چوٹی کے سائنسدانوں اور تحقیق کرنے والوں کو دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ پورے خلوص کے ساتھ تحقیق کرتے ہیں تاکہ اپنےسائنسی شعبے اور انسانیت کی خدمت کرسکیں مگر اس کے باوجود بھی، بنیادی طور پر مادیت ہی ان کی ساری جدوجہد کا مرکز ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، دینی مدارس اور علمائے کرام کا مقصد خالص دین کی خدمت ہوتا ہے اور ان میں دین کی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے اور اسی خلوص کی برکت سے یہ چٹائیوں پر بیٹھنے والے علمائے کرام بلا کسی معاوضہ کے اپنی پوری پوری زندگیاں دین اور دینی علوم کی خدمت میں وقف کردیتے ہیں۔
اب جبکہ ہم دینی مدارس کے علمائے کرام عصری جامعات کی طرف راغب ہوں گے تو لامحالہ ان کے اندر بھی دنیا حاصل کرنے کی تڑپ پیدا ہوگی اور اگر وہ دنیاوی لوگوں کی طرح مسابقت نہیں کریں گے تو پھر وہ ان عصری علوم میں پیچھے رہ جائیں گے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی علوم کی خدمت کے اندر اخلاص اور للہیت جیسے عناصر کو عنقا ہونے سے بچایا جائے اور اس کیلئے اکابر کی ترتیب پر علم کرتے ہوئے دینی مدارس صرف دینی علوم پر توجہ دیں۔
دینی مدارس کے اندر جدید فقہی مقالات کی تدوین و اشاعت اور ان کا معیار
الحمدللہ یہ بات لکھتے ہوئے بہت مسرت ہوتی ہے کہ دینی مدارس اپنے کام کے اندر نہ صرف ماہر ہیں بلکہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے انہوں نے اپنا لوہا پوری دنیا کے اندر منوایا ہے۔ مجھے عصری علوم کے طالبعلم کی حیثیت سے جب دینی مدارس سے نکلنے والے جدید فقہی مقالات ، مضامین و تحقیقات دیکھنے کا موقع ملتا ہے تو دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔نیز جب ہم تخصص کے شعبہ جات سے فارغ التحصیل مفتیان کرام کا تحقیقی کام دیکھتے ہیں تو وہ بھی بہت اعلیٰ اور معیاری قسم کا ہوتا ہے۔ تحریر کے اسلوب سے لے کر تحقیقی مواد تک اور پھر مضمون کے ڈھانچے سے لے کر مصادر تک، تمام ہی کام انتہائی اعلیٰ معیار کا ہوتا ہے۔ان دینی مدارس کے نظم کے تحت جو باقائدہ مجموعہ فتویٰ جات شائع ہوتے ہیں وہ اپنے اندر انتہائی اعلیٰ درجے کا تحقیقی مواد رکھتے ہیں اور ان کے اندر علوم کا ایک خزانہ چھپا ہوا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو رسائل و جرائد مختلف دینی مدارس شائع کرتے ہیں وہ بھی نہایت اعلیٰ معیار کے ہوتے ہیں۔ دینی مدارس کے اندر جو تحقیق ہو رہی ہے اس کو ہم اس طرح سے بیان کرسکتے ہیں (دیکھیے شکل نمبر ۱)۔ یہ بات ہمیں ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جو تحقیق دینی مدارس کے اندر سائنسی شعبوں سے متعلق ہورہی ہے (جیسا کہ شکل نمبر ۱ میں دکھایا گیا ہے)، وہ بنیادی سائنسی تحقیق نہیں ہے بلکہ وہ سائنسی شعبوں سے متعلق جو فقہی احکامات ہیں اس سے متعلق تحقیق ہے۔ مثلاً کمپیوٹر سائنس سے متعلق تحقیقی مضمون بلاک چین (کرپٹوکرنسی – بٹ کوائن) سے متعلق یہ دینی مدارس تحقیق نہیں کررہے بلکہ کمپیوٹر کے ماہرین اور سائنسدانوں سے بلاک چین (کرپٹوکرنسی) کے کام کرنے کے انداز کو سمجھ کر اس کے دینی احکامات بتارہے ہوتے ہیں۔

شکل نمبر 1
مروجہ سائنسی تحقیق کا ماڈل اور اس کا اطلاق دینی تحقیق و فقہی مقالات پر
آجکل کی دنیا میں جو مروجہ سائنسی ماڈل تحقیق کے حوالے سے موجود ہے اس میں جامعات کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ پھر ان جامعات کا حکومتی اداروں، پالیسی ساز اداروں، اور انڈسٹری کے ساتھ تامل بھی ہونا چاہیے اور ان جامعات کی فنڈنگ کا نظام ایک مربوط طریقے سے چل رہا ہے۔ انہی جامعات سے پھر سائنسدان تیار ہوتے ہیں جو کہ اپنے اپنے سائنسی شعبہ جات کے اندر مختلف مضامین پر تحقیقی کام کرتے ہیں۔ ایک سائنسدان اور پروفیسر کو جو وسائل میسر آتے ہیں اس کی بنیاد پروہ پورا اپنا ریسرچ سینٹر بناتا ہے اور اپنے جیسے دیگر سائنسدانوں کے گروپ کو ملا کر سائنسی تحقیق کو آگے لے جانے کی سعی کرتا ہے۔اس کیلئے اس کو فنڈنگ بھی چاہیے ہوتی ہے جو کہ اس کو مختلف ذرائع سے آسانی کے ساتھ میسر آجاتی ہے اور اس کی بنیاد پر وہ دیگر طلباء کو پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی تفویض کرتا ہے ، نیز اپنے سائنسی تحقیقی کام کو بھی آگے بڑھاتا ہے۔ جو بھی یہ سائنسدان تحقیق کرتا ہے اس تحقیق کو سائنسی مضامین اور مقالات کی شکل میں شائع کیا جاتا ہے اور پھر انہی مقالات کی بنیاد پر اس سائنسدان کا اگلے گریڈ پر ترقی اور دیگر ذرائع آمدن کے مواقع میسر آتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ مروجہ سائنسی تحقیق ماڈل کے اندر تحقیقی مقالات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ذیل میں ہم سائنسی تحقیق مقالاجات کی اہمیت کو ایک شکل سے واضح کرتے ہیں (دیکھیے شکل نمبر ۲)۔ اس میں ہم یہ بتا رہے ہیں کہ سائنسی مقالاجات کے لکھنے کی اہمیت کیا ہے۔

شکل نمبر ۲: سائنسی مقالاجات کیوں لکھے جاتے ہیں؟
اس کے بالمقابل اگرہم دینی مدارس کی بات کریں اور تخصص کی بات کریں تو وہاں کا تحقیق کاماڈل مروجہ سائنسی ماڈل سے مختلف ہے۔ مثلاً دینی مدارس کے اندر جو تخصص کے مقالاجات لکھے جاتے ہیں ان کے اندر Peer Review Process یعنی تحقیقی مقالاجات کو پرکھنے کا معیار کا طریقہ مروجہ سائنسی طریقے کے مطابق نہیں ہوتا۔ نیز ان فقہی مقالاجات کی عالمی سطح پر کوئی اشاعت نہیں ہوتی اور خاصی پذیرائی بھی نہیں ملتی۔ ہاں البتہ بعض مرتبہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ ایک تخصص کا طالبعلم اپنے فقہی مقالہ کو عالمی سائنسی تحقیقی جریدے میں اشاعت کیلئے بھیجتا ہے مگر اس کیلئے اس فقہی مقالے کو اس جریدے کے اصول و ضوابط کے مطابق ڈھالنا پڑتا ہے اور یہ کافی محنت طلب کام ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی دینی مدرسے کا فقہی رسالہ مثلاً بینات یا البلاغ عالمی سطح پر سائنسدانوں کے یہاں تسلیم ہوجائے؟ اس کا جواب نفی میں ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جو سائنسی جرائد ہوتے ہیں ان کو اپنے آپ کے رجسٹرڈ اور انڈیکس کروانا پڑتا ہے سائنسی ریگولیٹری باڈیز کے پاس اور ان کے کچھ بیس سے اوپر اصول ہیں جن کی بنیاد پر وہ ان جرائد کو تسلیم کرتے ہیں ۔ ان اصولوں پرکاربند ہونے سے دینی جرائد کی خودمختاری پر اثر پڑے گا اس واسطے یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ یہ دینی جرائد سائنسی دنیا میں تسلیم کئے جاسکیں۔پھر یہاں پر یہ سوال بھی بجا ہے کہ دینی مدارس کو ایسا کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ علمائے کرام کا مقصد ڈگریوں کا حصول نہیں، نیز پیسوں اور اعلیٰ عہدوں کا حصول بھی ان کا مقصد نہیں تو پھر وہ یہ راستہ اختیار ہی کیوں کریں۔
وفاق المدارس کے نظم کے تحت فقہی مقالات کی تدوین واشاعت اور ان کے جانچنے کا ملکی نظم
الحمدللہ وفاق المدارس کے نظم کے تحت مدارس کی نمائندہ جماعت کا ماہنامہ شمارہ وفاق سے متعلق خبروں کو چھاپتا رہتا ہے اور اس کے اندر مختلف تحقیقی مقالاجات بھی چھپتے رہتے ہیں۔ ایک ترتیب یہ بھی شروع کی جاسکتی ہے کہ وفاق المدارس ایک بین الاقوامی تحقیقی جریدے کا اجراء کرے اور اس کے اندر ایک ایڈوٹوریل بورڈ Editorial Board تشکیل دیا جائے جس کے اندر ایڈیٹر ان چیف اور ایڈیٹرز ہوں اور یہ تمام حضرات پورے پاکستان کے نامور علمائے کرام ہوں اور اپنے اپنے دینی شعبہ جاتے کے اندر مہارت رکھتے ہوں۔ اور پھر پورے پاکستان کے تمام مدارس کے تخصص کے طلباء تحقیق مقالاجات اس جریدے کے اندر چھاپنے کیلئے بھیجیں۔ پھر ان فقہی مقالاجات کی مروجہ سائنسی طریقے کے مطابق جانچ پڑتال کی جائے اور صرف انہی فقہی مقالاجات کو اس جریدے کا حصہ بنایا جائے جو کہ متعین کردہ معیار پر پورا اترتا ہو۔ اس سار ے نظم کے تحت پوری پاکستان کے فقہی مقالات کو ایک دینی جریدے کی شکل میں شائع ہونے کا باقائدہ موقع مل جائے گا۔
علمائے کرام کی خدمت میں کچھ گزارشات
آخر میں گزارش یہ ہے کہ جو علمائے کرام اور مفتیان کرام پاکستان کی عصری علوم کی جامعات سے پی ایچ ڈی اور تحقیق کررہے ہیں تو ان کو خصوصی طور پر محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ آجکل چونکہ ہمارے ملک پاکستان کی عصری جامعات کے اندر بنیاد چونکہ ڈگری اور پیسے کا حصول ہے اور تحقیق ان کا مقصد نہیں ہے تو لا محالہ یہ چیز ہمارے علمائے کرام کے سامنے بھی پیش آئے گی اور جو علمائے کرام اور مفتیان کرام ان عصری جامعات سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کریں گے ان کے اندر سائنسی استعداد کی کمی ہوگی اور وہ یہ سمجھیں گے کہ سائنس اسی کا نام ہے جو کہ انہوں نے ان عصری جامعات کے اندر سیکھی ہے۔ اب اگر اصولی طور پر دیکھا جائے تو قصور ان عصری جامعات اور سائنسدان حضرات کا ہے جو کہ غیر معیاری تحقیق کروارہے ہیں اور اسی کی بنیاد پر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں تفویض کررہے ہیں۔
انتہائی ادب کے درجے کے اندر رہتے ہوئے ہم علمائے کرام کی خدمت میں کچھ گزارشات رکھنا چاہتے ہیں ۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ اگر ہم نے سائنسی علوم پر کام کرنا ہے تو پھر ان کے اصولوں اور معیارات کے مطابق ہی تحقیق کرنی ہوگی۔ اس میں سب سے بنیادی بات تو سائنسی تعلیم کا حصول ہے اور پھر اس میں رسوخ ہے۔اگر پروفیشنل ڈگریوں کی بات کی جائے تو چاہے آپ حکومتی اسکولوں سے پڑھے ہوں یا کیمبرج نظامِ تعلیم والے اسکولوں سے، آپ پروفیشنل ڈگری کا حصول کریں گے۔ مثلاً آپ انجینئرنگ کے شعبے میں یو ای ٹی سے انجینئر کی ڈگری حاصل کریں گے اور اگر آپ طب کے شعبے منسلک ہونا چاہتے ہیں تو کسی میڈیکل یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کریں گے۔پھر اس کے بعد ان شعبوں میں مہارے حاصل کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی ہے جیسا کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی ڈگریاں ہیں۔ اور پھر ان کے بعد پوسٹ ڈاکٹریٹ بھی ہو جائے تو سونے پر سہاگہ ہے۔ اس سارے پروسس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ایک طالبعلم جو کہ اگر بہترین انگریزی اسکولوں سے تعلیم حاصل کرے اور پھر اپنی زندگی کے ۱۶ یا ۱۷ سال کھپانے کے بعد وہ انجینئر یا میڈیکل ڈاکٹر بنتا ہے۔ پھر اگر بہت ہی اعلیٰ نمبروں کے حصول کے بعد وہ ایم ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کا حصول کرلے تو پھر کہیں جا کر وہ ایک عام سا محقق اور سائنسدان بنتا ہے جس کو اپنے شعبے کی محض شُد بد ہی ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر ہم یہ چاہ رہے ہیں کہ ایک طالبعلم جو کہ درسِ نظامی سے فارغ ہو اور تخصص کرنے کے بعد وہ عصری جامعات سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرلے تو یہ ایک مشکل کام ہے۔ سوال یہ ہے کہ میں اس کام کو مشکل کیوں کہہ رہا ہوں؟ وجہ اس کی یہ ہے کہ جودینی مدارس سے علمائے اور مفتیانِ کرام درسِ نظامی اور تخصص سے فارغ ہورہے ہیں وہ انجینئر یا ڈاکٹر نہیں ہوتے ہاں البتہ چونکہ ایچ ای سی ان کو ماسٹرز کے مساوی ڈگری دے دیتی ہے تو اس بنیاد پر وہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے اندر داخلہ لے لیتے ہیں اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کا حصول بھی کرلیتے ہیں مگر سائنسی شعبوں میں جیسا کہ طب، ارضیات، فلکیات، طبیعات، وغیرہ میں یہ ڈگریاں نہیں ہوتیں۔ تو یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ دینی مدارس سے فارغ التحصیل طلباء اگر عصری علوم پر مہارت بھی حاصل کرچکیں اور عصری جامعات سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل بھی کرلیں تو وہ سائنسدان بن جاتے ہیں۔
دوسری گزارش یہ تھی کہ اگر علمائے کرام اور مفتیان کرام عصری جامعات سے تحقیق اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل بھی کرنا چاہتے ہیں تو تحقیق عالمی معیار کی کرنا ہوگی۔ اب یہ کیسے پتہ چلے گا کہ عالمی معیار کی تحقیق کیسے کی جائے؟ تو اس کیلئے ہم دنیا کی بہترین جامعات کے اندر ہونے والی تحقیق کا اپنی تحقیق سے مقابلہ کرکے دیکھ لیں۔ اس سے ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ ہماری تحقیق کی کتنی وقت ہے۔ نیز ہم یہ بھی کوشش کریں کہ ہماری تحقیق عالمی معیاری سائنسی جرائد کے اندر چھپے اور اس کیلئے ہم Clarivate کی سائنسی جرائد کی لسٹ کے اندر سے اعلیٰ معیار کے سائنسی جرائد منتخب سکتے ہیں۔
تیسری گزارش یہ تھی کہ عالمِ اسلام کے اندر بہت ہی اعلیٰ اور معیاری قسم کی تحقیق کا کام مدارس کےنظم کے تحت سرانجام دیا جارہا ہے اور اس کی مثال وہ مقالہ جات ہیں جو کہ البلاغ، بینات، ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک، وغیرہ اور دیگر جرائد کے اندر چھپ رہے ہیں اور یہ مقالہ جات انتہائی اعلیٰ معیار کے ہوتے ہیں اور بعض مرتبہ تخصص کے طلباء اپنے تحقیقی مضامیں ان جرائد کی زینت بناتے ہیں۔ مگر بنیادی طوری پر یہ رسائل وجرائد سائنسی نہیں ہیں۔ اب اگر ہمیں سائنسی تحقیق کرنی ہے تو ہمیں اپنی تحقیق کو سائنسی جرائد و رسائل کے اندر چھپوانا ہوگا۔
اسی طرح سے ہمارے اکابرین بار بار یہ ارشاد فرماچکے ہیں کہ مدارس کا مقصد سائنسدان یا انجینئر یا ڈاکٹر پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ ایسے رجال کار تیار کرنا ہے جو کہ علومِ اسلامی میں مہارت رکھتے ہوں تاکہ دین کی خدمت پوری یکسوئی کے ساتھ کرسکیں۔ اب چونکہ کچھ مدارس علمائے کرام کو سائنسی تحقیق اور پی ایچ ڈی کی طرف راغب کررہے ہیں تو ہمیں اس بات کا اہتمام کرنا ہوگا کہ وہ سائنسی تحقیق کریں اور ان کی سائنسی تحقیق اعلیٰ معیار کی ہو۔
دوسری اہم چیز اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ مدارس سے بھی سائنسدان اور انجینئر اور میڈیکل ڈاکٹر حضرات کو نکلنا چاہیے تو پھر ان مدارس کی ضرورت کیا ہے؟ اور اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک نئی میڈیکل یونیورسٹی یا انجینئرنگ یونیورسٹی کا قیام عمل میں لاتے ہیں تو وہ تو پہلے سے ہی موجود ہیں اور نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان کی تعداد ۲۲۹ کے قریب ہے۔ اتنی وافر مقدار موجود ہونے کے باوجود پھر ان نئی یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں کیوں لایا جائے؟ اس کا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ اس واسطے قیام میں لایا جائے تاکہ ہم دینی ذہن کے انجینئز ، سائنسدان، اور ڈاکٹر تیار کرسکیں تو سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوسکے گا؟ اصل میں ان کے اندر داخلہ میرٹ کی بنیاد پر ہوگا تو آپ کیسے یہ قدغن لگائیں گے کہ سارے کے سارے دینی ذہن والے ہی داخلہ لیں گے اور کیسے حکومت اس بات کی اجازت دے گی اور کیسے عالمی ایکریڈیشن باڈیز ان کے اسناد کو تسلیم کریں گی؟ یعنی یہ عصری علوم کی جامعات مدارس کے نظام کے ماتحت تو نہیں ہیں کہ ان کے اندر صرف اور صرف دینی رجحان کو دیکھتے ہوئے داخلے دیئے جائیں، اس میں تو معاشرے کے تمام طبقات داخلہ لینے کے اہل ہوں گے اگر وہ میرٹ کی بنیاد پر اترتے ہوں۔
جب ہم مسلمان سائنسدانوں کی بات کرتے ہیں تو ان میں ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی، فخر الدین رازی، ابو نصر محمد بن محمد فارابی، ابن سینا، محمد بن موسی خوارزمی، امام غزالی، اور ابن خلدون قابلِ ذکر ناموں میں نظر آتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر سائنسدان طب، فلکیات، طبیعات، کیمیا، فلسفہ، علم الکائنات (کونیات)، ما بعد الطبیعات، منطق، ریاضی اور جغرافیہ وغیرہ سائنسی علوم کے ماہر تھے۔ تو اگر ہمیں بحیثیت مسلمان سائنس کی دنیا میں اپنا نام پیدا کرنا ہے تو یہ بات ناگریز ہے کہ ہم ان سائنسی علوم پر محنت کریں۔ اگر طب کی دنیا میں مسلمانوں کا نام پیدا کرنا ہے تو پھر طب کے مضامین پر عالمی سطح کی معیاری تحقیق کرنا ہوگی، اگر فلکیات پر مسلمان سائنسدانوں کو سکہ جمانا ہے تو پھر فلکیات پر ہم رسوخ پیدا کریں اور اگر ریاضی کے میدان میں مسلمانوں کا نام پیدا کرنا ہے تو پھر ریاضی کے علوم پر تحقیق کرنا ہوگی۔ اگر بحیثیت قوم ہم یہ چاہتے ہیں کہ پھر ہماری صفوں میں سے البیرونی، رازی، فارابی، ابن سینا، خوارزمی، غزالی اور ابن خلدون جیسے جید سائنسدان پیدا ہوں تو پھر ہمیں سائنس کےمیدان میں ترقی کرنا ہوگی اور جیسا کہ ہم اس مضمون کے شروع میں بیان کرچکے ہیں کہ پاکستان میں عصری جامعات اور ان کے اندر ہونے والی تحقیق عالمی سطح اور معیار کی نہیں ہے لہذا خالی ہمارے عزم کرنے سے ہم اس خلا کو پُر نہیں کرپائیں گے بلکہ اس کے لئے ہمیں اپنی عصری جامعات اور ان میں ہونے والی تحقیق کے معیار کو بڑھانے کیلئے عملی اقدامات کرنے ہوں گے اور یہ عصری جامعات ، ان کے عہدے داران اور پاکستانی سائنسدانوں کا میدان ہے جس پر وہ ایک عملی حکمتِ علمی تیار کریں اور یہ مدارس کے دائرہ کار کے اندر نہیں آتا۔
اگر ہم تیسری چوتھی صدی کے مسلمانوں کے تعلیمی نظام کا جائزہ لیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان ایک ہی چھت کے نیچے مختلف علوم حاصل کرتے تھے۔ ایک لمحے کیلئے اگر ہم یہ نظام پاکستان میں نافذ کردیں تو ہمارے پاس پاکستان کے اندر تعلیمی ادارے ہوں گے جو کہ دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کے تدریس بھی دیں گے اور پھر جو طالبعلم جس شعبے کے اندر مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اس شعبے کو اختیار کر لے گا۔ مثلاً ایک طالبعلم انٹرمیڈیٹ تک دینی اور عصری علوم حاصل کرے گا اور پھر وہ اپنے پسندیدہ شعبے کے اندر مہارت حاصل کرنے کیلئے بیچلرز، ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کا حصول کرے گا۔ یہاں پر وہ چاہے تو انٹرمیڈیٹ کے بعد طب کے شعبے کو اختیار کرلے اور چاہے تو اسلامی تاریخ کے مضمون کو اختیار کرتے ہوئے اس کے اندر بیچلرز، ماسٹرز، اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کا حصول کرے۔ اس سے یہ ہوگا یہ جتنے بھی مدارس موجود ہیں وہ اس طریقے سے فعال نہیں رہیں گے جس طرح سے آج کے حالات میں موجود ہیں اور عصری علوم کا تو حال ہم اپنی جامعات میں دیکھ چکے ہیں تو پھر ہم ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے۔تو خلاصہ کلام اس سارے مضمون کا یہ ہوا کہ اگر ہم سائنسی دنیا میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو عصری جامعات اور ان میں ہونے والی تحقیق کے معیار کو ہمیں بڑھانا ہو گا نہ کہ مدارس کے نظام کو تبدیل کرکے ان میں دینی علوم کے ساتھ عصری علوم بھی پڑھانے شروع کردیئے جائیں وہ بھی اس نیت سے کہ ایسا کرنے سے ان مدارس سے بھی سائنسدان پیدا ہوسکیں۔

حواشی و حوالہ جات

اپنا تبصرہ بھیجیں