شادی پر ملنے والا تحفہ دلہن یا ساس میں سے کس کی ملکیت سمجھا جائے

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ولیمے میں اکثر لوگ سونے کی چیز تحفے میں دیتے ہیں تو عموماً دلہے کی ماں کے ہاتھوں میں پکڑاتے ہیں سوال یہ ہے کہ وہ سونا دلہن کی ملکیت ہوگا یا دلہے کی ماں کی ملکیت ہوگا ؟
الجواب باسم ملھم الصواب
تحفہ دیتے وقت اگر دینے والوں نے ملکیت کی صراحت کردی تھی تو پھر اسی کی ملکیت شمار ہوگی جسے نامزد کردیا گیا تھا ۔
اگر کوئی صراحت نہیں کی تو عموماً ایسے لین دین میں عرف کا اعتبار ہوتا ہے،لڑکے والوں کے عرف میں یہ سونا جس کی ملکیت سمجھا جاتا ہے اسی کی ملکیت شمار ہوگا ۔ خواہ دلہن کو دیا جائے یا ساس کو ۔
اگر کوئی عرف رائج نہیں ہے تو عرف عام کے مطابق دلہن کا ہدیہ شمار ہو کر اس کی ملکیت مانا جائے گا ۔
چنانچہ فتاوی عثمانی ہے:
“جو سامان سابقہ شوہر اور اس کے والدین نے شادی کے وقت دیا تھا،اگر وہ آپ کی بھتیجی کو ہبہ کرکے اور مالک بنا کر دینے کی صراحت کی تھی ،تب تو وہ آپ کی بھتیجی کی ہی ملکیت ہے، اور اگر ایسی صراحت نہیں ہوئی تھی تو ہمارے زمانے میں عرف یہ ہے کہ وہ شوہر ہی کی ملکیت ہوتا ہے ، لہذا اس عرف کے مطابق وہ شوہر کی ملکیت ہوگا”( فتاوی عثمانی 2/ 298)

نیز امداد المفتیین میں بھی اسی قسم کے سوال کے جواب میں مذکور ہے :
“یہ مسئلہ دراصل عرف اور رواج کے تابع ہے،ہمارے شہروں کا عرف تو یہ ہے کہ لڑکی کا باپ جو زیور وغیرہ جہیز میں دیتا ہے وہ لڑکی کی ملک کردیتا اور لڑکی ہی کی مملوک سمجھے جاتے ہیں اور خاوند اور اس کے اقرباء جو زیور چڑھاتے ہیں وہ خاوند ہی کی طرف ملک رہتے ہیں عورت اس کا استعمال عاریۃ کرتی ہے اسی لئے تصرفات بیع وغیرہ کا اختیار نہیں ہوتا تو جس جگہ یہی عرف ہو وہاں دلہا کی جانب سے جو زیورات چڑھائے گئے تھے وہ دولہا کی ملک اور اس کی میراث ہونگے ” (469)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1. “الهدايا التي تأتي في الختان أو الزفاف تكون لمن تأتي باسمه من المختون أو العروس أو الوالد والوالدة وإن لم يذكر أنها وردت لمن ولم يمكن السؤال والتحقيق فعلى ذلك يراعى عرف البلدة وعادتها.
(الخاتمة) إن الأشياء التي ترسل ‌في ‌حفلات كهذه إذا كانت تدفع عرفا وعادة على وجه البدل فيلزم القابض مثلها إذا كانت من المثليات وقيمتها إذا كانت من القيميات وإذا كان لا يرسل بمقتضى العرف والعادة على وجه البدل بل ترسل على طريق الهبة والتبرع فحكمها كحكم الهبة ولا رجوع بعد الهلاك والاستهلاك والأصل في هذا الباب هو أن المعروف عرفا كالمشروط شرطا.”
(درالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام: الكتاب السابع الهبة، الباب الثاني في بيان احكام الهبة، 2/ 482، ط:دار الجيل)
2. “والمعتمد البناء على العرف كما علمت”.(فتاویٰ شامی: 3 /157، باب المہر، ط؛ سعید)

و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ29/ربیع الثانی /۱۴۴۴ھ
شمسی تاریخ:25/نومبر/2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں