شان و فضائل سیدنا عمر رضی اللہ عنہ

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اسلام لائے تو مشرکین نے کہا، آج ہماری طاقت آدھی ہو گئی۔ اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ۔ (تفسیرمظہری در منشور)

یِا اَیُّہَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ O(الانفا ل :٦٤)

”اے نبی ﷺ! اﷲ تمہیں کافی ہے اور یہ جتنے مسلمان تمہارے پیرو ہوئے”۔

آپ کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ کسی معاملے میں آپ جو مشورہ دیتے یا رائے پیش کرتے   قرآن کریم آپ کی رائے کے موافق نازل ہوتا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ  کا ارشاد ہے کہ قرآن کریم میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی آراء موجود ہیں جن کی وحی الہٰی نے تائید فرمائی ہے۔

حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ اگر بعض امور میں لوگوں کے رائے کچھ اور ہوتی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کچھ اور  تو قرآن مجید حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رائے کے موافق نازل ہوتا تھا۔ (تاریخ الخلفاء:١٩٧)

حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا ”میرے رب نے تین امور میں میری موافقت فرمائی۔ مقامِ ابراہیم پر نماز کے متعلق پردے کے بارے میں اور بدر کے قیدیوں کے معاملے میں”۔ (بخاری مسلم)

محدثین فرماتے ہیں کہ ان تین امور میں حصر کی وجہ انکی شہرت ہے ورنہ موافقت کی تعداد اس سے زائد ہےجن کا تذکرہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخ الخلفاء میں کیا ہے ان امورکی تفصیل حسب ذیل ہے:ـ

1۔ حجاب کے احکام سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ! ازواجِ مطہرات کے سامنے طرح طرح کے لوگ آتے ہیں اس لیے آپ انہیں پردے کا حکم دیجیے۔ اس پر یہ آیت نازل ہو گئی۔

 وَاِذَا سَاَلْتُمُوْھنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَاءِ حِجَابٍ۔”اور جب تم ان سے برتنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر مانگو ”۔ (الاحزاب:٥٣، )

2۔ ایک بار آپ نے عرض کی، یا رسول اللہ ! ہم مقامِ ابراہیم کو مصلیٰ نہ بنالیں؟

 اس پر یہ آیت نازل ہوگئی، وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہمَ مُصَلًّی ۔ ”اور ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ”۔(البقرۃ:١٢٥)

3۔ بدر کے قیدیوں کے متعلق بعض نے فدیہ کی رائے دی جبکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انہیں قتل کرنے کا مشورہ دیا ۔ اس پر آپ کی موافقت میں یہ آیت نازل ہوئی۔ لَوْلاَ کِتَاب مِنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَا اَخَذْتُمْ عَذَاب عَظِیْم”۔

” اگر اللہ ایک بات پہلے لکھ نہ چکا ہوتاتو اے مسلمانو! تم نے جو کافروں سے بدلے کا مال لے لیا،اس میںتم پر بڑا عذاب آتا ”۔(الانفال:٦٨)

4۔ نبی کریم ﷺ کا اپنی کنیز حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جانا بعض ازواجِ مطہرات کو ناگوار لگا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان سے فرمایا

عَسٰی رَبُّہ، اِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِنْکُنَّ۔ ” اگر وہ تمہیں طلاق دے دیں تو قریب ہے کہ اُن کا رب اُنہیں تم سے بہتر بیویاں بدل دے”۔ (التحریم:٣) بالکل انہی الفاظ کے ساتھ وحی نازل ہوگئی۔

5۔ حرمت سے قبل مدینہ طیبہ میں شراب اور جوئے کاعام رواج تھا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بارگاہِ نبوی میں عرض کی، ہمیں شراب اور جوئے کے متعلق ہدایت دیجیے کیونکہ یہ مال اور عقل دونوں ضائع کرتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی، یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَا اِثْم کَبِیْر”۔”تم سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں، تم فرما دو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے ”۔ (البقرۃ:٢١٩)

6۔ ایک بار ایک شخص نے شراب کے نشہ میں نماز پڑھائی تو قرآن غلط پڑھا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پھر وہی عرض کی تو یہ آیت نازل ہوئی۔

یٰااَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکَارٰی ۔(النساء:٤٣)

”اے ایمان والو! نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ ”۔

7۔ اسی سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بار بار دعا کی ، الٰہی! شراب اور جوئے کے متعلق ہمارے لئے واضح حکم نازل فرما۔ یہاں تک کہ شراب اور جوئے کے حرام ہونے پریہ آیت نازل ہوگئی۔ اِنَّمَا الْخَمْرُ والْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلاَمُ رِجْس مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ ۔ ”

بیشک شراب اور جؤا اور بت اور پانسے ناپاک ہی ہیںشیطانی کام، تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ”۔ (المائدۃ:٩٠)

8۔ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت لَقَدْخَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِنْ طِیْنِ (بیشک ہم نے آدمی کو چُنی ہوئی مٹی سے بنایا نازل ہوئی۔ (المؤمنون:١٢)

 تو اِسے سن کرحضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بے ساختہ کہا، فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ۔ ” تو بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بنانے والا”۔ اس کے بعد اِنہی لفظوں سے یہ آیت نازل ہوگئی۔ (تفسیر ابن ابی حاتم)

9۔ جب منافق عبداللہ ابن اُبی مرا تو اُس کے لوگوں نے رسو ل ُاللہ سے اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے درخواست کی ۔اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی،یا رسول اللہ! عبداللہ ابن اُبی توآپ کا سخت دشمن اور منافق تھا ،آپ اُس کا جنازہ پڑھیں گے؟ رحمتِ عالم نے تبلیغ دین کی حکمت کے پیشِ نظر اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ یہ آیت نازل ہوگئی ، وَلاَ تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَاتَ اَبَدًا۔ ”اور جب ان(منافقوں) میں سے کوئی مرے تو اس پر نماز نہ پڑھیے”۔

یہ خیال رہے کہ حضور اکرم کا یہ فعل صحیح اور کئی حکمتوں پر مبنی تھا جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس نماز کی وجہ سے اس منافق کی قوم کے ایک ہزار افراد اسلام لے آئے۔اگر آپ کا یہ فعل مبارک رب تعالٰیٰ کو پسند نہ ہوتا تو وہ وحی کے ذریعے آپ کو اسکی نماز جنازہ پڑھانے سے منع فرما دیتا۔ جبکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رائے کا صحیح ہونا عام منافقوں کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کے متعلق ہے۔

10۔ اسی نماز جنازہ کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی، سَوَاء عَلَیْہِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَہُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ۔ ”ان منافقوں کے لیے استغفار کرنا نہ کرنا برابر ہے”۔اس پر سورۃ المنافقون کی یہ آیت نازل ہوئی۔ (طبرانی )

11۔ جس وقت رسول اکرم نے جنگ بدر کے سلسلہ میں صحابہ کرام سے باہر نکل کر لڑنے کے سلسلہ میں مشورہ کیا تو اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نکلنے ہی کا مشورہ دیا اور اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ کَمَا اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْ بَیْتِکَ بِالْحَقِّ الخ۔ ”جس طرح اے محبوب! تمہیں تمہارے رب نے (لڑنے کے لئے)تمہارے گھر سے حق کے ساتھ برآمد کیا اور بیشک مسلمانوں کا ایک گروہ اس پر ناخوش تھا”۔(الانفال:٥)

12۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پرجب منافقوں نے بہتان لگایا تو ر سول اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مشورہ فرمایا۔ آپ نے عرض کی

میرے آقا! آپ کا اُن سے نکاح کس نے کیاتھا؟حضور اکرم نے ارشاد فرمایا، اللہ نے ! اس پر آپ نے عرض کی  کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے رب نے آپ سے اُن کے عیب کوچھپایا ہو گا بخدا یہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر عظیم بہتان ہے۔ سُبْحٰنَکَ ھٰذَا بُہْتَان عَظِیْم” ۔ اسی طرح آیت نازل ہوئی۔ (النور:١٦)

13۔ ابتدائے اسلام میں رمضان شریف کی رات میں بھی بیوی سے قربت منع تھی ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کے بارے میں کچھ عرض کیا۔ اس کے بعد شب میں مجامعت کو جائز قرار دے دیا گیااور آیت نازل ہوئی۔ اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَائِکُمْ۔”

روزوں کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا تمہارے لیے حلال ہوا”۔ (البقرۃ:١٨٧)

14۔ ایک یہودی نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا ، جبرئیل فرشتہ جس کا ذکر تمہارے نبی کرتے ہیںوہ ہمارا دشمن ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا، مَنْ کَانَ عَدُوَّ لِلّٰہِ وَمَلاَئِکَتِہٖ وَرُسُلِہ وَجِبْرِیْلَ وَمِیْکَالَ فَاِنَّ اللّٰہَ عَدُوُّ لِلْکٰفِرِیْن۔

”جو کوئی دشمن ہو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکائیل کا ،تو اللہ دشمن ہے کافروں کا”۔(البقرۃ:٩٨) بالکل اِنہی الفاظ میں یہ آیت نازل ہوئی۔

15۔ دو شخص لڑائی کے بعد انصاف کے لیے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے ۔ حضور ﷺ نے ان کا فیصلہ کر دیا لیکن جس کے خلاف یہ فیصلہ ہواوہ منافق تھا۔ اس نے کہا کہ چلو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس چلیں اور ان سے فیصلہ کرائیں۔ چنانچہ یہ دونوں پہنچے اور جس شخص کے موافق حضور نے فیصلہ کیا تھا اس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا ، حضور نے تو ہمارا فیصلہ اس طرح فرمایا تھا لیکن یہ میرا ساتھی نہیں مانا اورآپ کے پاس فیصلہ کے لئے لے آیا ۔ آپ نے فرمایا، ذرا ٹھہرو میں آتا ہوں۔ آپ اندر سے تلوار نکال لائے اور اس شخص کو جس نے حضور کا فیصلہ نہیں مانا تھا، قتل کر دیا۔ دوسرا شخص بھاگا ہوا رسولُ اللہ  کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس واقعہ کی اطلاع دی۔ آپ نے فرمایا، مجھے عمرسے یہ امید نہیں کہ وہ کسی مومن کے قتل پر اس طرح جرات کرے ۔ اس پر اللہ تعالٰیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس منافق کے خون سے بری رہے۔

فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ الخ۔

ترجمہ:تواے محبوب ! تمہارے رب کی قسم! وہ مسلمان نہ ہونگے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو،اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں”۔ (النساء ٦٥،

16۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک روز سو رہے تھے کہ آپ کا ایک غلام بغیر اجازت لیے اندر چلا آیا۔ اس وقت آپ نے دعا فرمائی

 الٰہی! بغیر اجازت گھروں میں داخل ہونا حرام فرما دے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا ۔ ” اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک اجازت نہ لے لو ”۔(النور:٢٧،

17۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ فرمانا کہ یہود ایک حیران و سرگرداں قوم ہے۔ آپ کے اس قول کے مطابق آیت نازل ہوئی۔

18۔ “ثُلَّۃ مِنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ ثُلَّۃ” مِنَ الْاٰخِرِیْنَ بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تائید میں نازل ہوئی۔ (تاریخ الخلفاء

اپنا تبصرہ بھیجیں