شیعہ سنی کے نکاح کا حکم

فتویٰ نمبر:706

سوال: مفتی صاحب. کیا شیعہ سنی کا نکاح جائز ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامدًا ومصلّياً

جو شیعہ ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کےمنکر ہوں،جیسے:
(۱)حضرت علی کو(نعوذباللہ)خداومعبود مانتےہوں۔
(۲) قرآن کریم کوتحريف یا تبديل شده مانتےہوں۔
(۳) حضرت ابوبکر صدیق کی صحبتِ قرآنی کا انکار کرتےہوں۔
(۴) اس بات کے قائل ہوں کہ حضرت جبرائیل ؑسے وحی لانے میں غلطی ہوئی ہے۔
(۵) حضرت عائشہ صدیقہ پر لگائی گئی تہمت کوصحیح مانتےہوں یا کوئی اورایسا عقیدہ رکھتے ہوں جو قرآن کریم کے صریح خلاف ہوتو ایسےشیعہ کافر ہیں اور ان کے ساتھ کسی مسلمان کا نکاح ہرگز جائز نہیں اور اگر کسی ایسے شیعہ سے کسی مسلمان عورت کا نکاح کردیا گیا تو نکاح ہی منعقد نہیں ہوگا۔

اور اگر کوئی شیعہ مذکورہ عقائدميں سے كسی کفریہ عقیدہ کاتو قائل نہ ہو لیکن وہ حضرت علی کو حضرت ابوبکر صدیق پر فضیلت دیتا ہویا نعوذباللہ صحابہ کرام کو برا بھلا کہتا ہوتو ایسا شخص کافر تو نہیں لیکن فاسق اور گمراہ ہےاور اہلِ سنت والجماعت سے خارج ہے اور ایسا شیعہ لڑکا بھی سنی مسلمان لڑکی کا دینی اعتبار سے کفو نہیں ہے
اورایسے شیعہ لڑکے سے اگر کوئی سنّی لڑکی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گی تو اس صورت میں بھی یہ نکاح منعقد نہیں ہوگا ۔البتہ اگر کسی سنّی لڑکی کے اولیا ء اس کی اجازت اور رضامندی سے اس کا نکاح دوسری قسم کے شیعہ سے کرادیں تو اگرچہ نکاح ہوجاتاہے لیکن اس نکاح سے بھی احتیاط کا مشورہ دیا جاتا ہے کیونکہ عام طور سے ایسا نکاح کامیاب نہیں ہوتا ۔
لھٰذاکسی سنی مسلمان کو یہ مشورہ نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح کسی شیعہ سے کردے،کیونکہ اس میں جہاں اس لڑکی اور اولادکے عقائد خراب ہونے کا اندیشہ ہے وہاں ایسے کئے جانے والے نکاح سے جو شریعت کے مقاصد ہیں وہ بھی حاصل نہیں ہوتےاورمذہبی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے میاں بیوی میں ذہنی ہم آہنگی پیدا نہیں ہوپاتی جو لڑائی جھگڑے اور فتنہ و فساد کا باعث بنتی ہے اس لئے مذکورہ تفصیل کی بناء پرآپ کو بھی یہی مشورہ ہے کہ اپنے ہی مسلک کے کسی لڑکے سے شادی کریں۔(مأخذہٗ التبویب:27/1234)

===============
لما في قوله تعالي [البقرة : 221]
وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ أُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ
===============
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (4 / 237)
أَقُولُ: نَعَمْ نَقَلَ فِي الْبَزَّازِيَّةِ عَنْ الْخُلَاصَةِ أَنَّ الرَّافِضِيَّ إذَا كَانَ يَسُبُّ الشَّيْخَيْنِ وَيَلْعَنُهُمَا فَهُوَ كَافِرٌ، وَإِنْ كَانَ يُفَضِّلُ عَلِيًّا عَلَيْهِمَا فَهُوَ مُبْتَدِعٌ. اهـ.
وَهَذَا لَا يَسْتَلْزِمُ عَدَمَ قَبُولِ التَّوْبَةِ. عَلَى أَنَّ الْحُكْمَ عَلَيْهِ بِالْكُفْرِ مُشْكِلٌ، لِمَا فِي الِاخْتِيَارِ اتَّفَقَ الْأَئِمَّةُ عَلَى تَضْلِيلِ أَهْلِ الْبِدَعِ أَجْمَعَ وَتَخْطِئَتِهِمْ وَسَبُّ أَحَدٍ مِنْ الصَّحَابَةِ وَبُغْضُهُ لَا يَكُونُ كُفْرًا، لَكِنْ يُضَلَّلُ إلَخْ…. لَا شَكَّ فِي تَكْفِيرِ مَنْ قَذَفَ السَّيِّدَةَ عَائِشَةَ – رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا – أَوْ أَنْكَرَ صُحْبَةَ الصِّدِّيقِ، أَوْ اعْتَقَدَ الْأُلُوهِيَّةَ فِي عَلِيٍّ أَوْ أَنَّ جِبْرِيلَ غَلِطَ فِي الْوَحْيِ، أَوْ نَحْوُ ذَلِكَ مِنْ الْكُفْرِ الصَّرِيحِ الْمُخَالِفِ لِلْقُرْآنِ،
===============
بدائع الصنائع – (2 / 270)
ومنها أن لا تكون المرأة مشركة إذا كان الرجل مسلما فلا يجوز للمسلم أن ينكح المشركة لقوله تعالى { ولا تنكحوا المشركات حتى يؤمن } ويجوز أن ينكح الكتابية لقوله عز وجل { والمحصنات من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم } والفرق أن الأصل أن لا يجوز للمسلم أن ينكح الكافرة لأن ازدواج الكافرة والمخالطة معها مع قيام العداوة الدينية لا يحصل السكن والمودة الذي هو قوام مقاصد النكاح
===============
غمز عيون البصائر شرح كتاب الاشباه والنظائر- الحموي – (1 / 291)
ذكر في الاختيار في فصل الخوارج والبغاة إن سب أحدا من الصحابة وبغضه لا يكون كفرا لكن يضلل فإن عليا رضي الله عنه لم يكفر شاتمه حتى لم يقتله.
===============

واللہ تعالی اعلم بالصواب
 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں