سورۃ الرعد اعدادوشمار زمانہ نزول ومرکزی موضوع

اعدادوشمار:
سورہ رعد مصحف کی ترتیب کے لحاظ سے تیرھویں سورت ہے۔یہ سورت 6 رکوع 43 آیات 854 کلمات اور3450 حروف پرمشتمل ہے ۔
زمانہ نزول:
اس کے زمانہ نزول میں زبردست اختلاف ہے ۔بعض مفسرین اس کو مکی مانتے ہیں کیونکہ اس کے مضامین مکی سورتوں کی طرح ہیں،جبکہ بعض مفسرین نے اس کے مدنی ہونے پر اجماع کادعوی کیاہے۔
تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير (18/ 524)
مَدَنِيَّةٌ، وَآيَاتُهَا: 43، نَزَلَتْ بَعْدَ سُورَةِ محمد سُورَةُ الرَّعْدِ أَرْبَعُونَ وَثَلَاثُ آيَاتٍ مَكِّيَّةٌ سِوَى قول تَعَالَى: وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا تُصِيبُهُمْ بِما صَنَعُوا قارِعَةٌ [الرَّعْدِ: 31] وَقَوْلِهِ: وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتابِ [الرَّعْدِ: 43] قَالَ الْأَصَمُّ هِيَ مَدَنِيَّةٌ بِالْإِجْمَاعِ سِوَى قَوْلِهِ تَعَالَى: وَلَوْ أَنَّ قُرْآناً سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبالُ [الرَّعْدِ: 31]
علامہ آلوسی نے یہ تطبیق دی ہے کہ سورت مکی ہے تاہم کچھ آیات مدنی بھی ہیں۔وہ آیات ذیل کی عبارتوں میں مذکور ہیں:
اللَّهُ يَعْلَمُ ما تَحْمِلُ كُلُّ أُنْثى [الرعد: 8] إلى قوله سبحانه: وَهُوَ شَدِيدُ الْمِحالِ [الرعد: 13] نزل في قصة أربد بن قيس وعامر بن الطفيل حين قدما المدينة على رسول الله صلى الله عليه وسلم
قال الكلبي عن أبي صالح عن ابن عباس: إنّها مكّيّة إلّا آيتين، قوله: وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا تُصِيبُهُمْ بِما صَنَعُوا، وقوله وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتابِ. (تفسير الثعلبي :5/
وجہ تسمیہ:
کائنات کی جو نشانیاں اس سورت میں بیان کی گئی ہیں ان میں بادلوں کی گرج چمک بھی ہے جس کا ذکر اس سورت کی آیت نمبر13 میں آیا ہے {وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ }عربی میں گرج کو رعد کہاجاتا ہے ،اسی پر اس سورت کا نام رعد رکھا گیا ہے۔
مرکزی موضوع:
حق طاقتور اور باطل کمزور ہوتا ہے ۔یہ اس سورت کامرکزی موضوع ہے۔
اس بات کودلائل اور مثالوں سے سورت میں سمجھایا گیا ہے۔حق اور باطل کی چارمثالیں دی گئی ہیں:
1۔ گمراہی اندھاپن ہے۔اس کے مقابلے میں حق پرست بصارت والاہے۔أَفَمَنْ يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَى [الرعد: 19] قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ [الرعد: 16]
2۔ گمراہی اور باطل اندھیرےکی مانند ہے۔اس کےمقابلے میں حق پرستی روشنی اور اجالے کی طرح ہے۔ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ}
3۔ حق کی مثال سونے کی طرح ہےجوباقی رہتاہے اور نفع مند ہے ، جبکہ باطل کی مثال سونے کی جھاگ کی طرح ہے جوختم ہوجاتی ہے۔ { أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَابِيًا وَمِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُهُ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ} [الرعد: 17]
4۔ حق کی مثال سیلاب کےپانی کے مانند ہے جو ہر جگہ چلاجاتا ہے اور مخلوق کوفائدہ پہنچاتاہے،جبکہ باطل اور گمراہی کی مثال سیلاب کی جھاگ کی طرح ہے جوکسی کام کانہیں۔ ایضا)
سورت میں بت پرستی کی ایک مثال یہ بھی دی گئی ہے کہ ایک شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلائے رکھے اور یہ سمجھے کہ پانی مشکل کشا ہے خود بخود اس کے منہ میں چلاجائےگا۔ظاہر ہے ایسا ہرگزبھی نہیں ہوگا ۔یہی مثال بت پرستی کی ہےکہ بت کچھ دے نہیں سکتاپھر بھی بت پرست اس کو مشکل کشا سمجھتے ہیں۔ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُمْ بِشَيْءٍ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ} [الرعد: 14]
( ازگلدستہ قرآن)

اپنا تبصرہ بھیجیں